اسلامی ریاست کے خدوخال اور بین المذاہب ہم آہنگی

تحریر: ریحان الدین فیضی
(فیضی کے قلم سے)

فلاحی ریاست کا تصور حقیقت میں اسلامی ریاست کا انسائیکلوپیڈیا ہوتا ہے اور جہاں جہاں اسلامی ریاست کا تذکرہ ہوگا وہیں فلاحی ریاست کا تذکرہ ہوگا یا یوں سمجھ لیا جائے کہ اسلامی ریاست اور فلاحی ریاست کا تعلق آپس میں اتنا گہرا ہے کہ یہ دونوں ریاستیں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ دین اسلام ایک معتدل مذہب ہے اور اسلامی تعلیمات بھی عدل و انصاف، اخوت و بھائی چارگی اور دیانت داری پر مشتمل ہیں۔ جہاں اسلام نے مسلم امت کو آپس میں بھائی چارگی اور عدل و انصاف کا درس دیا وہیں مسلمانوں کو غیر مسلم کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم بھی دیا ہے چاہے معاشرتی امور پر مشتمل معاملات ہوں یا کاروباری لین دین، مذہبی آزادی ہو یا ایک دوسرے کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی، اسلامی ریاست میں ایک مسلم کا کسی بھی غیر مسلم کے ساتھ کسی بھی نوعیت کی ہم آہنگی کے حوالے سے جو اسلامی تعلیمات ہیں اس کی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی اور ان تعلیمات کے پیش نظر ایک غیر مسلم اپنے آپ کو سلامی مملکت میں محفوظ سمجھتا ہے اور یہ ایک فلاحی مملکت کی علامت ہے۔ جہاں اسلامی تعلیمات کو رائج کر دیا جائے جہاں معاشرتی سکون بھی ہو ملکی فضائیں امن و امان کی وجہ سے محفوظ ہو خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مرتبہ اس چیز کا ذکر کیا ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اسلام میں عناد پرستی جنگ و جدل لسانیت اور طبقاتی تفرقہ بازی کی بالکل گنجائش نہیں اس کے برعکس دوسرے مذاہب کی تعلیمات کو دیکھا جائے تو کہیں نہ کہیں طبقاتی تفرقہ بازی ضرور نظر آئے گی حجۃ الوداع کے موقع پر جناب نبی کریمﷺ نے مسلمانوں کے عظیم اجتماع سے بین المذاہب ہم آہنگی اور آپس میں بھائی چارگی پر تاکید سے فرمایا تھا کہ کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں جبکہ عربی کو غیر عربی پر کوئی فوقیت نہیں اور سب مسلمانوں سے فرمایا کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اس کے علاوہ جناب نبی کریمﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر اہل مکہ جو کہ اس وقت تک غیر مسلم تھے ان سب کو معاف کر دیا یہاں تک کے آپﷺ کے چچا جان حضرت حمزہؓ کے قاتلوں کو بھی معاف کر دیا۔ کفار مکہ نے جناب نبی کریمﷺ کے اس حسن سلوک سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا جب جناب نبی کریمﷺ نے مدینہ منورہ کی اسلامی و فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی تو جہاں معاشرتی امور پر مسلمانوں کے حقوق مرتب کیے گئے وہی غیر مسلم کے حقوق مرتب کیے اور ان حقوق کے پیش نظر غیر مسلم مدینہ منورہ میں آزادانہ نقل و حرکت کے ساتھ اپنی زندگی گزارا کرتے تھے ایک مرتبہ جناب نبی کریمﷺ کہیں تشریف فرما تھے تو ساتھ ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو جنازہ کے احترام میں آپﷺ کھڑے ہوگئے، ایک مرتبہ قبیلہ نجران جو کہ اس وقت عیسائیوں کا قبیلہ ہوا کرتا تھا وہ جناب نبی کریمﷺ کے پاس کسی کام سے آئے اور آپﷺ نے ان کی مہمان نوازی کی اور انہوں نے اس دوران عبادت کے لئے مسجد نبوی میں جگہ مانگی تو آپﷺ نے انہیں عبادت کرنے کی اجازت عنایت فرمائی امام بیہقی نے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ ایک مسلمان نے کسی غیر مسلم کو ظلماً قتل کر دیا تھا چنانچہ جناب نبی کریمﷺ نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کا حکم فرمایا اور جب جناب نبی کریمﷺ نے جب مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو غیر مسلموں کے بارے میں درج ذیل حقوق بیان کیے؛

• غیر مسلم کی عورتیں بچے اور بوڑھے محفوظ ہیں۔

• غیر مسلم اپنی عبادت ہر لحاظ سے کھلے عام کرسکتے ہیں۔

• غیر مسلم کی جائیدادیں اور ان کے املاک محفوظ ہیں۔

• غیر مسلم آزادانہ اسلامی نقطہ نظر کے تحت اپنا کاروبار کرسکتے ہیں۔

جناب نبی کریمﷺ کی جانب سے رائج کردہ ایک مثالی معاشرتی نظام اس بات کی دلیل ہے کہ جہاں اسلامی ریاست کا تصور ہو گا وہیں فلاحی ریاست کا بھی تصور ہو گا اور اسلام ہی وہ مذہب ہے جو بین المذاہب ہم آہنگی کا درس دیتا ہے۔ مملکت خداداد پاکستان جو کہ ایک مکمل اسلامی ریاست ہے اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کی بنیاد ایک مکمل اسلامی و فلاحی ریاست کے طور پر رکھی جس کے حصول کے لیے بانیان پاکستان کی جدوجہد کی ایک عظیم تاریخ ہے جب پاکستان کی ایک فلاحی اور اسلامی مملکت کے طور پر ۴۱ اگست ۱۹۴۷ء میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے بنیاد رکھی تو ایک جم غفیر اجتماع سے خطاب کر کے فرمایا کہ پاکستان کی بنیاد پر کلمہ لا الہ الا اللہ کو لکھ دیا گیا اور ایک ایسے ملک کی بنیاد رکھی جا رہی ہے جسے خالص اسلامی اصولوں پر چلایا جائے گا جہاں ہر کسی کو ہر طرح کی مذہبی آزادی حاصل ہو گی جہاں ہر کوئی کھلی اور پرامن فضاء کو محسوس کرسکے گا جہاں لسانیت اور طبقاتی حیثیت سے دور بھائی چارگی کی ذہنیت رکھنے والی قوم آباد ہو گی قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے اس عظیم فلسفہ کے مد نظر آج مملکت پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کے پرامن پیغام کو لے کر کچھ محب وطن پاکستانی ہمارے معاشرے میں کام کرتے نظر آئیں گے جن کا مشن جن کی سوچ جن کا کردار اور جن کے کاز نظریہ پاکستان کی عکاسی کرتی ہے جو افواج پاکستان سمیت دیگر سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ اگر ہم بحیثیت قوم ایک پاکستانی ہوکر پاکستان کی بقاء و سلامتی کا سوچیں گے تو ہمارا پاکستان نہ صرف مضبوط بلکہ مضبوط تر ہوتا جائے گا اور دنیا کے اقوام میں ایک تابندہ و روشن ستارے کی طرح ممتاز نظر آئے گا۔ پاکستان الحمدللہ پوری دنیا میں وہ واحد ملک ہے جہاں مسلم و غیر مسلم ایک قوم کی طرح ایک سوسائٹی میں آباد ہیں جہاں مسجدوں سے اللہ اکبر کی فضائیں بلند بھی ہوتی ہیں جہاں کلیساؤں کے گھنٹے اور مندر کی گھنٹیاں بھی سنائی دیتی ہیں جہاں اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہیں جہاں اقلیتوں کے دکھ سکھ میں مسلم قوم اپنا کردار ادا کرتی ان کی پریشانیوں میں امید کی کرن بنتی ہے اور ان کی خوشیوں پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور یہ فلسفہ درحقیقت مدنی ریاست کا فلسفہ ہے جس کی بنیاد محمد رسول اللہﷺ نے رکھی تھی جو ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی سوچ کی عکاسی کر رہی ہوتی ہے۔ امن و امان اور بین المذاہب ہم آہنگی کی بنیاد کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پاکستان میں بہت سے گورنمنٹ اور نان گورنمنٹ سے ادارے کام کر رہے ہیں جن کے کاز کو لے کر عوام میں انہیں بہت ہی پزیرائی ملتی ہے جو وقتاً فوقتاً جناحؒ کے عظیم فلسفے کو دہراتے رہتے ہیں اور پاکستان کے امن و امان اور بین المذاہب ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے محنت کرتے رہتے ہیں اسی سلسلے کی کڑی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پاکستان میں ایک پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی جا رہی ہے جس کا نام ہیومن رائٹس پیس فورم ہے جو امن و امان کو برقرار رکھنے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو مضبوط کرنے کے لیے بلا تفریق اور غیر سیاسی ہو کر میدان عمل میں کام کرے گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملک پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائے امین۔

اپنا تبصرہ لکھیں