ایک ہزار ہیکرز کی خفیہ ٹیم

TOA کے اراکین خصوصی سافٹ وئیرز بنا کر نیٹ ورک راؤٹرز اور فائر والز کو بھی ہیک کر لیتے ہیں۔ فیس بک اور ای میل سروسز استعمال کرنے والوں کے تمام پیغامات تک رسائی ہے۔

یوں تو منظم اور انفرادی طور پر کارروائیاں کرنے والے ہیکرز دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، تاہم ہیکرز کی سب سے بڑی ٹیم امریکی حساس ادارے نیشنل سیکورٹی ایجنسی (این ایس اے) نے پال رکھی ہے۔ این ایس اے کے ملازم ایک ہزار سے زائد ہیکرز مسلسل دنیا بھر کے کمپیوٹر نیٹ ورک میں گھس کر وہ راز چرا رہے ہیں، جن تک انٹیلی جنس کے روایتی ذرائع سے رسائی ممکن نہیں۔ یہی نہیں بلکہ خطرناک ترین ہیکر گروہوں کی فہرست میں سب سے اوپر آنے والی اس ٹیم کو امریکا کی تینوں بڑی ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں اے ٹی اینڈٹی، ویریزون اور اسپرنٹ سمیت امریکی انٹرنیٹ سروس پروائڈرز اور کمپیوٹر سیکورٹی سے متعلق سافٹ ویئر یعنی اینٹی وائرس بنانے والی کمپنیوں کی بھی معاونت حاصل ہے۔
این ایس اے کے لیے کام کرنے والے کمپیوٹر ماہر ایڈورڈ اسنوڈن نے 2013ء میں جب امریکا کی خفیہ دستاویزات افشاں کیں تو دنیا کو معلوم ہوا کہ امریکی ادارے دنیا بھر کے کروڑو ں انٹرنیٹ صارفین کی جاسوسی کر رہے ہیں۔ تاہم اس تہلکہ خیز انکشاف کی بازگشت ابھی باقی تھی کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ، جرمن میگزین Der Spiegel اور فارن پالیسی میگزین نے مختصر وقفے میں سامنے آنے والی اپنی رپورٹوں میں اکشاف کیا کہ امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی نے ہیکرز کا ایک یونٹ قائم کر رکھا ہے۔ بعد میں سامنے آنے والی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا، لوگوں کی ای میلز اور فون کالز کی جاسوسی بھی انہی ہیکرز کے ذریعے کرتا ہے، جبکہ مذکورہ ہیکنگ یونٹ کے اہداف لامحدود ہیں۔
این ایس اے میں قائم ہیکنگ یونٹ کو Tailored Access Operations یا ٹی اے او کہا جاتا ہے۔ باور کیا جاتاہے کہ یہ خفیہ ٹیم 1998ء میں تشکیل دی گئی تھی۔ فارن پالیسی میگزین کے مطابق یہ ٹیم این ایس اے کے ایک انتہائی خفیہ پروگرام کے تحت قائم کی گئی۔ اس پروگرام کے تحت ہیکرز دوسرے ممالک کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کے لیے ان کے کمپیوٹرز میں گھستے ہیں، تمام کمیونیکیشن کی نگرانی کرتے ہیں اور ڈیٹا چرا لیتے ہیں۔ فارن پالیسی میگزین کے مضمون نگار میتھیو ایڈ نے بتایا کہ ٹی اے او کے اراکین ایسے سافٹ وئیر بھی بناتے ہیں جن کے ذریعے دشمنوں کے کمپیوٹرز اور نیٹ ورکس کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ایسا صرف صدر کے حکم پر ہوتا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار کیے گئے وائرس ’’اسٹکس نیٹ‘‘ اور ’’فلیمز‘‘ امریکا اور اسرئیل کی مشترکہ پیداوار تھے اور عین ممکن ہے کہ ان وائرسز کی تخلیق میں ٹی اے او کا کردار رہا ہو۔ امریکی اخبار کے مطابق ٹی اے او کے اراکین ضرورت کے مطابق مختلف قسم کے سافٹ وئیرز تیار کرتے رہتے ہیں، جو کمپیوٹرز ہی نہیں بلکہ عام استعمال ہونے والے نیٹ ورک آلات یعنی راؤٹرز، سوئچز اور فائروائلز کو بھی ہیک کر لیتے ہیں۔ چونکہ یہ آلات مختلف کمپنیاں الگ الگ طریقے سے تیار کرتی ہیں، اس لیے ہیکنگ کا سافٹ وئیر بھی اسی ناپ سے بنایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ٹیم کو ’’ٹیلرڈایکسس آپریشنز‘‘ کہا جاتا ہے۔
ایسے سافٹ وئیرز میں چھپا بیٹھا سافٹ وئیر این ایس اے کے مخصوص سرورز سے رابطے میں ہوتا ہے اور مذکورہ نیٹ ورک کے صارفین کی سرگرمیوں سے امریکی ہیکرز کو آگاہ رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی صارف ایک ویب سائٹ کھولتا ہے تو یہ سافٹ وئیرز صارف کی جانب سے براؤزر میں درج کردہ URL کی ایک نقل امریکی سرورز کو بھیج دیتا ہے۔ اسی طرح جب ویب سائٹ سے ڈیٹا سرور کو منتقل ہوتا ہے تو سافٹ وئیر اس میں اپنا اسکرپٹ شامل کر دیتا ہے۔
راؤٹرز کو ہیک کرنے والے ایک سافٹ وئیر کا نام FOXACID ہے۔ دیراسپیگل نے انکشاف کیا کہ این ایس اے کے ہیکرز FOXACID کی بدولت فیس بک، ٹوئٹر، جی میل، یاہو، یوٹیوب، ہاٹ میل، ایم ایس این میل اور کیو کیو کے صارفین کی جاسوسی کر سکتے ہیں۔ ٹی اے او کے اراکین انٹرنیٹ پر رازداری میں سہولت فراہم کرنے والے سافٹ وئیر ’’ٹار‘‘ کے صارفین کو بھی نشانہ بناتے ہیں، اور اس مقصد کے لیے ایک خاص سافٹ وئیر استعمال کیا جاتا ہے۔
تاہم امریکی ہیکرز کی یہ ٹیم صرف سافٹ وئیرز پر ہی انحصار نہیں کرتی بلکہ کچھ روایتی طریقے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ جرمن میگزین کے مطابق سی آئی اے اور ایف بی آئی کی معاونت سے ٹی او اے کے اراکین امریکا میں لیپ ٹاپ کمپیوٹرز کی آن لائن خریداری پر نظر رکھتے ہیں۔ اور جب لیپ ٹاپس کی کھیپ کمپنیوں کی جانب سے صارفین کو روانہ کی جاتی ہے تو وہ اسے راستے میں روک کر کسی گودام میں لے جاتے ہیں، جہاں ان تمام کمپیوٹرز پر جاسوسی کے سافٹ وئیرز نصب کر دئیے جاتے ہیں۔ ٹی اے او کی ان کارروائیوں کی وجہ سے امریکی کمپیوٹر کمپنیوں سسکو اور ڈیل کو وضاحتیں کرنا پڑیں کہ ان کی جانب سے فروخت کیے جانے والے کمپیوٹرز پر جاسوسی کے آلات پہلے سے نصب نہیں ہوتے۔
ٹی او اے کی کارروائیوں کا نشانہ تمام ممالک ہی بن رہے ہیں، تاہم اس کے بڑے اہداف میں چین شامل ہے۔ جبکہ امریکی ہیکرز تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کی بھی جاسوسی کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ ٹی او اے نے SEA-ME-WE-4 نامی زیر سمندر فائبر آپٹک کیبل کی بھی جاسوسی شروع کر رکھی ہے۔ یہ کیبل پاکستان، بھارت، سری لنکا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور مصر سمیت کئی ممالک کو آپس میں انٹرنیٹ سے جوڑتی ہے۔
ٹی او اے نے ڈھٹائی پر مبنی ایک نعرہ بھی اپنا رکھا ہے۔

’’تمہارا ڈیٹا ہمارا ڈیٹا ہے، تمہارے آلات، ہمارے آلات ہیں۔ہر جگہ، ہر وقت، کسی بھی طریقے سے۔‘‘

اپنا تبصرہ لکھیں