ڈینگی سے بچاؤ کی آسان تدابیر

احتیاط نہ کرنے سے ڈینگی بخار بگڑ جاتا ہے۔ خون کے اخراج کی زیادتی مریض کو موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہے۔

ڈینگی سے بچاؤ: عوام کیا کرے؟

ڈینگی کا معاملہ خاص طور پر دو وجہ سے حساس ہے۔اول یہ کہ احتیاط نہ کرنے کی صورت میں ڈینگی بخاربگڑ کر ’’ڈینگی جریانی بخار‘‘(Dengue Hemorrhagic Fever) میں تبدیل ہو سکتا ہے، جس میں جسم سے خون کا اخراج متاثرہ فرد کو موت کے منہ میں دھکیل سکتا ہے۔دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ڈینگی کی وجہ بننے والا مچھر’’ایڈیز‘‘ ہی چکن گونیا اور زیکا جیسی تکلیف دہ بیماریوں کی وجہ بھی ہے۔واضح رہے کہ ایڈیز مچھرکی خاص نشانی اس کی لمبی ٹانگیں ہیں، جن پرکالی سفید دھاریاں دکھائی دیتی ہے اور اسی لیے یہ’’ ٹائیگر مچھر ‘‘بھی کہلاتا ہے۔
ڈینگی بخار کی مخصوص علامات میں تیز بخار، متلی، سر میں درد، کمر (پیٹ کے پچھلے مقام پر) درد، بدن میں اینٹھن اور جسم پر سرخ دانے نکل آنا بھی شامل ہیں۔ بیماری شدید ہونے پر ان علامات کے ساتھ ساتھ مریض کی ناک اور منہ سے خون بھی نکلنے لگتا ہے اورایسی صورت میں متاثرہ شخص کو جلد از جلداسپتال پہنچا دینا چاہیے ۔
ایڈیز مچھر کے بارے میں ایک اور اہم بات یہ بھی یاد رکھیے کہ یہ صبح سویرے اور شام کے وقت زیادہ سرگرم ہوتا ہےاور عموماً ان ہی اوقات میں کاٹتا بھی ہے، یعنی ان مواقع پر خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے، دن کے دوسرے اوقات میں بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیجیے۔
مچھر مار دواؤں کا اسپرے ایڈیز مچھروں کا وقتی طور پر کسی حد تک خاتمہ ضرور کرتا ہے، لیکن یہ ڈینگی وباء کو قابو میں رکھنے کا ضامن ہرگز نہیں، کیونکہ ملیریا پھیلانے والے عام مچھروں کے برعکس، ڈینگی بردارایڈیز مچھر صاف پانی میں پروان چڑھتے ہیں، جو گھروں میں (بالٹیوں اور ٹینکیوں کے اندر) کئی دنوں تک محفوظ کر کے رکھا جاتا ہے گھر کی پارکنگ یا چھت پر رکھے ہوئے پرانے ٹائروں کے اندر جمع ہونے والے پانی میں‏بھی ایڈیز اپنی کالونیاں بنا سکتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان تمام جگہوں کا بھی وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہیےاور ان میں موجود پانی خشک کرتے رہیے۔
کے علاوہ پنکچر کی دوکانوں پر بھی پانی سے بھرے ہوئے ٹب رکھے ہوتے ہیں، جن میں ٹائر ڈال کر پنکچرچیک کیا جاتا ہے۔ ایسے ٹب کا پانی کئی دنوں تک تبدیل نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے یہاں بھی ایڈیز مچھر بآسانی پروان چڑھتے ہیں۔ اگر پنکچر شاپ پر ٹب کا پانی روزانہ تبدیل کیا جاتا رہے تو اس سے بھی ڈینگی بردار ایڈیز مچھر کا پھیلاؤ روکا جا سکتا ہے۔

مزید کم خرچ احتیاطی تدابیر یہ ہیں:

گھر میں صفائی ستھرائی کا خصوصی خیال رکھیے اور اگر کیاریوں یا گملوں میں پودے لگا رکھے ہوں تو ان پر باقاعدگی سے کیڑے مار دواؤں کا (خاص کر مچھر مار دواؤں کا) اسپرے کرتے رہیے۔
گھر میں اور گھر کے آس پاس پانی کھڑا ہونے نہ دیجئے۔ واضح رہے کہ گندے اور بدبودار پانی کےعلاوہ اگر صاف پانی بھی زیادہ دیر تک کسی کھلی جگہ پر کھڑا رہے تو اس میں بھی ڈینگی پھیلانے والے یعنی ایڈیز مچھر پیدا ہو سکتے ہیں۔
چونکہ ایڈیز مچھر صاف پانی میں نشونما پاتاہے،اس لئے گھر میں رکھی گئی پانی کی ٹینکیوں اور پانی رکھنے والے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھیے اور اگر ممکن ہو تو انہیں صبح و شام صاف بھی کرتے رہیے۔
یہی معاملہ مسہریوں، چارپائیوں اور گھروں میں بنے ہوئے اسٹور رومز کا بھی ہے، جہاں کاٹھ کباڑ اور پرانا سامان رکھا رہتا ہے۔گھر کے ایسے مقامات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، جو زیادہ وقت تاریکی اور نمی میں رہتے ہوں، کیوں کہ یہاں مچھروں کے ساتھ ساتھ لال بیگ اور دوسرے کیڑے مکوڑے بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ وقفے وقفے سے ان جگہوں سے سامان نکال کر اچھی طرح صفائی کی جائےاور کیڑے مار دواؤں کا اسپرے کر دیا جائےاور ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی یقینی بنائی جائے کہ ان مقامات پر سیلن پیدا نہ ہونے پائے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کے فلیٹوں کی گیلریوں میں گملے اور چڑیوں کے لیے پانی کے پیالے رکھ دیے جاتے ہیں ، جن میں پانی جمع رہتا ہے ۔ بہتر ہے کہ پیالوں میں روزانہ پانی تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ گملوں پر کیڑے مار دوائیں پابندی سے چھڑکی جائیں۔
پانی ابال کر یا فلٹر کرکے استعمال کرنا ہر موسم میں اچھی صحت کے لئے ضروری ہے۔
اگر ممکن ہو تو گلی محلے کے بچوں کو ذمہ داری دیجئے کہ وہ کھیل کے دوران علاقے میں (خاص طور پر تنگ گلیوں میں) کھڑے ہوئے پانی اور گندگی کے بارے میں اپنے گھر کے بڑوں کو فوری طور پر بتائیں، تاکہ ان جگہوں کو جلد از جلد صاف کیا جائے اوروہاں مچھر، مکھیاں وغیرہ پیدا نہ ہونے پائیں۔
کیڑے مکوڑوں کو بھگانے والی معیاری دوائیں جسم کے کھلے حصوں پر لگائیں، لیکن اگر کسی دوا سے الرجی کا خطرہ ہو تو ڈاکٹر کے مشورے سے مختلف دوا استعمال کیجئے۔
کوشش کیجئے لمبا، ڈھیلا ڈھالا اور ہلکے رنگ والا لباس پہنیں، کیوں کہ ایسا لباس آپ کے پورے جسم کو ڈھک کر رکھتا ہےاور کیڑے مکوڑوں سے بچانے میں بھی بہت مددگار رہتا ہے۔
مچھر سے بچاؤ کے لئے مچھر بھگانے والا کوائل اور میٹ وغیرہ استعمال کیجئے اور اگر علاقے میں بہت زیادہ مچھر ہوں تو اضافی طور پر مچھر دانی لگا کر سویئے۔

ڈینگی کا مریض کیا کرے؟

ڈینگی کے مریض کو چاہئے کہ روزانہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں پانی استعمال کرےاور کوشش کرے کہ سوپ یا مشروبات کی شکل میں اپنی غذائی ضروریات پوری کرے۔
ڈینگی کی صورت میں آرام کرنا زیادہ بہتر رہتا ہے، کیونکہ اس سے جسم کا قدرتی دفاعی نظام (امیون سسٹم) بہتر کام کرتا ہے، جس سے بیماری کی شدت قابو میں رہتی ہے۔
وضح رہے کہ اب تک ڈینگی کی دوا یا ویکسین دستیاب نہیں، اس لئے اگر کوئی مہنگی دوا یہ کہہ کر فروخت کی جارہی ہو کہ اس سے ڈینگی کا علاج ممکن ہو جاتا ہے تو ایسے کسی دعوے پر یقین نہ کیجئے۔ درد اور بخار ختم کرنے والی عام اور کم خرچ دوائیں (مثلاً ڈسپرین، پیناڈول، پیراسیٹامول وغیرہ) ڈینگی کے دوران بخار کی شدت کم کرنے میں مناسب رہتی ہیں، البتہ مناسب ہوگا کہ انہیں ڈاکٹر کے مشورے سے ہی استعمال کیا جائے۔
پچھلے چند سال کے دوران تواتر سے ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ ڈینگی کے مریضوں کو پپیتے کے پتوں کا رس پلانے سے فائدہ پہنچا ہے، اگرچہ اب تک اس بارے میں کوئی سنجیدہ طبی تحقیق تو نہیں کی گئی ہے، لیکن سابقہ تجربات کی روشنی میں اس کے استعمال میں کوئی حرج بھی نہیں، یعنی اگر یہ مفید نہ ہو،تو اس سے کوئی نقصان بھی نہیں پہنچتا۔
ابھی آپ نے یہ جتنی تدابیر بھی پڑھی ہیں ان میں کچھ بھی نیا نہیں ہے بلکہ یہ معلومات بار بار عوام کی نظروں سے گزرتی رہتی ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ صرف حکومت ہی نہیں ، بلکہ عوام بھی صرف اسی وقت احتیاطی تدابیر اور دوسرے عملی کاموں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جب بیماری سے پیدا ہونے والا بحران شدید ہو جائے، حالانکہ پورے سال کئے جانے والے چھوٹے چھوٹے آسان اور کم خرچ عوامی اقدامات سے ایک بڑے حادثے کو ٹالا جا سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں