ہیکرز کے سب سے بڑے عالمی گروہ کا کوئی سربراہ نہیں

Anonymous کے تمام اراکین گروپ کے نام کی طرح گمنام ہیں۔ وکی لیکس اور کئی احتجاجی تحریکوں کی حمایت میں حملے کر چکے ہیں۔ انٹرنیٹ پر مفت سافٹ ویئر اور ویڈیوز کی فراہمی روکنے کے مخالف اداروں کو سائبر حملوں کا نشانہ بنایا۔ درجنوں گرفتاریوں کے باوجود گروپ برقرار ہے۔

کئی برسوں سے انٹرنیٹ کی دنیا میں انفرادی سطح پر ہونے والی ہیکنگ کی جگہ اجتماعی ہیکنگ نے لے لی ہے۔ جہاں پاکستان، بھارت، فلسطین اور شام کے ہیکرز ملکی سطح پر مل کر ہیکنگ کی کارروائیاں کرتے ہیں، وہیں عالمی سطح پر ہیکرز Anonymous نامی ایک گروپ کے جھنڈ تلے حملے کرتے ہیں اور دنیا کے طول و عرض میں کئی سرکاری و نجی اداروں کو نقصان پہنچا چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ہیکر گروپ کا کوئی سربراہ نہیں، تاہم اراکین کو گروپ کے اصولوں کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔
Anonymous جس کا مطلب گمنام ہے، اتنا معروف ہو چکا ہے کہ انٹرنیٹ اسرعمال کرنے والے تقریباً سبھی لوگ اس سے واقف ہیں۔ یہ گمنام گروپ 2003ء میں اس وقت بنا جب 4chan نامی ایک ویب سائٹ نے انٹرنیٹ صارفین کو گمنام رہتے ہوئے اپنے امیج بورڈ پر تصاویر شائع کرنے کی اجازت دی۔ یہیں سے اس ویب سائٹ کے صارفین میں شامل بعض ہیکرز کو یہ خیال سوجھا کہ کیوں نہ وہ بھی گمنام رہتے ہوئے اپنی کارروائیاں کریں۔ اس طرح ہیکرز کا گمنام گروپ قائم ہو گیا۔
امریکی تحقیقاتی اداروں کے مطابق اس گروپ کا کوئی سربراہ یا سربراہان نہیں ہیں، زیادہ سے زیادہ مرکزی سطح پر کچھ لوگ سرگرمیوں کو منظم رکھنے کے لیے سرگرم ہو سکتے ہیں، تاہم ان کی شناخت بھی کسی کو معلوم نہیں۔ انٹرنیٹ سیکورٹی ماہرین کے بقول گروپ کی کامیابی کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کے اراکین ایک مخصوص فلسفے پر عمل پیرا ہیں۔ Anonymous کے اراکین انونز (Anons) کہلاتے ہیں اور تمام انونز انٹرنیٹ پر سافٹ ویئر اور ویڈیوز کے مفت تبادلے کے حامی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے سافٹ ویئرز اور دیڈیوز کے اس تبادلے کو ’’پائریسی‘‘ یا سرقہ قرار دیتے ہیں اور اس قسم کے تبادلے کی سہولت دینے والی ویب سائٹس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ جواب میں انونز ایسے اداروں کو نشانہ بناتے ہیں، جنہوں نے ’’پائریسی‘‘ کی سہولت دینے والی ویب سائٹس کے خلاف کارروائی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کی ہو۔ Anonymous کا کہنا ہے کہ کسی بھی حکومت یا ادارے کو انٹرنیٹ کی سنسرشپ یا اسے کنٹرول کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہی اس گروپ کا فلسفہ ہے۔گروپ کی جانب سے نئے ہیکرز کے لیے کچھ ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں، جن کے تحت ہر ہیکر ہر خود کو گمنام رکھنا لازمی ہے۔ وہ کسی دوسرے ہیکر سے انٹرنیٹ کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے اپنی اصل شناخت ظاہر نہیں کر سکتا، نہ ہی اسے اس بارے میں بات کرنے کی اجازت ہے۔ گمنام گروپ کے اراکین نے ابتدا میں تفریح کے طور پر ہیکنگ شروع کی تھی۔ تاہم اب اس گروپ کے بعض اراکین کا کہنا ہے کہ انہیں صرف سنجیدہ نوعیت کی کارراوائیاں کرنی چاہیئں۔
چونکہ گمنام گروپ کسی واضح انتظامی ڈھانچے کے بجائے صرف ایک فلسفے کے تحت کام کرتا ہے، لہٰذا اس کے اراکین کی تعداد کے بارے میں کچھ بھی کہنا ممکن نہیں۔ تاہم اندازے کے مطابق یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔ گمنام گروپ کے اراکین نے 2010ء میں وکی لیکس کی حمایت میں سائبر حملے کیے تھے۔ جب وکی لیکس پر امریکہ کی خفیہ دستاویزات شائع ہوئیں تو حکومتی دباؤ پر مالیاتی کمپنیوں PayPal, Visa, Master Card نے وکی لیکس کو خدمات دینا بند کر دیں۔ لوگ ان مالیاتی اداروں کے ذریعے وکی لیکس کو عطیات بھجواتے تھے۔ گمنام گروپ نے انتقام کےطور پر PayPal اور دیگر اداروں کی ویب سائٹس پر DDoS حملے کیے۔ 8 دسمبر 2010ء کو PayPal کی مرکزی ویب سائٹ بند ہو گئی۔ 9 دسمبر کو ایک بار پھر کچھ دیر کے لیے یہ ویب سائٹ بند ہوئی۔ PayPal کے بقول گمنام گروپ کے حملوں کی وجہ سے اسے 55 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس نے سائبر حملے کرنے والے ایک ہزار ہیکرز کے IP Address ایف بی آئی کو فراہم کیے، لیکن ان میں سے صرف 14 کو گرفتار کیا جا سکا۔
اسی برس اس ’’گمنام‘‘ گروپ نے بھارت کی ایک کمپنی Aiplex Software پر بھی حملہ کیا۔ اس کمپنی نے پائریسی کی معروف ویب سائٹ www.thepiratebay.com کے خلاف DDoS حملے میں تکنیکی مدد فراہم کی تھی۔ ہیکرز نے اسی سال امریکی فلم ساز کمپنی ’’موشن پکچرز‘‘ کو بھی نشانہ بنایا، جو آن لائن ویڈیو پائرسی کی خلاف مختلف حکومتی اداروں کو متحرک کر رہی تھی۔
جب عرب ممالک میں حکمرانوں کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو 2011ء سے گمنام گروپ نے ان مظاہرین کی حمایت میں نہ صرف سرکاری اداروں کی ویب سائٹس پر سائبر حملے کیے، بلکہ مظاہرین کو انٹرنیٹ پر مکمل رازداری سے رابطوں کی سہولت بھی فراہم کی۔ بعد میں کئی دیگر تحریکوں میں بھی انہوں نے مظاہرین کا ساتھ دیا۔ گمنام گروپ کے ہیکرز خود بھی ماسک پہن کر بعض مظاہروں میں شریک ہوئے۔ وہ برطانوی پارلیمنٹ پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے گائے فاکس کی شکل سے ملتا جلتا ماسک پہنتے ہیں۔ یہی ماسک Anonymous گروپ کی علامت بھی ہے۔ گروپ کی ایک اور علامت میں ایک شخص کو سوٹ پہنے کھڑے دکھایا گیا ہے، تاہم اس شخص کے سر کی جگہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔
امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا سمیت مختلف ممالک میں اس گروپ کے درجنوں اراکین گرفتار ہو چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس کی کارروائیاں متاثر نہیں ہوئیں۔ 2012ء میں امریکہ کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی نے اس گروپ کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ تاہم امریکہ میں بعض سیکورٹی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ گمنام گروپ کے بیشتر حملے DDoS (ڈینائل آف سروس) کی صورت میں ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے ویب سائٹ عارضی طور پر بند ہونے کے علاوہ کوئی نقصان نہیں ہوتا، اس لیے یہ گروپ زیادہ بڑا خطرہ نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں