کیا بھارت ڈرون کا عالمی مرکز بننے جا رہا ہے؟

امریکا کی سیکریٹری خزانہ جینیٹ یلین نے کہا ہے کہ بھارت جی-7 کی جانب سے عائد قیمت کی شرائط سمیت یا کسی بھی صورت روس سے جتنا چاہے تیل درآمد کرسکتا ہے۔ ادیش پریتم ناتھ نئے نئے ڈرون پائلٹ بنے ہیں۔ وہ اپنے نئے ہنر کی بدولت مستقبل میں ممکنہ مواقع کے بارے میں کافی پرامید ہیں۔ ’سرٹیفائیڈ پائلٹ ہونے کی وجہ سے میرے پاس بہت سے مواقع ہیں۔ میں مختلف انڈسٹریز کے ساتھ کام کر رہا ہوں جیسا کہ سروے میپنگ، انسپیکشن اور زراعت۔‘ ڈرونز آج کل ہر شکل اور حجم میں بن رہے ہیں۔ چھوٹے ڈرون اکثر تین سے چار روٹر والے ہوتے ہیں جن میں کیمرا بھی نصب ہوتا ہے۔ بڑے ڈرون، جن کو عام طور پر فوج استعمال کرتی ہے، جہاز کی طرح نظر آتے ہیں اور زیادہ وزن اٹھا سکتے ہیں۔ انھوں نے پانچ دن کا کورس کیا جس کے بعد اب وہ ایسے ڈرونز کی ٹیسٹنگ کر رہے ہیں جن سے نقشے بنانے کے کام میں مدد لی جائے گی۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ اس کے بعد زیادہ بھاری بھرکم اور پیچیدہ ماڈل اڑانا سیکھ لیں۔ پریتم ناتھ کی ان خواہشوں اور کامیابیوں کی ایک بڑی وجہ انڈیا کی حکومت کی جانب سے ڈرون انڈسٹری کی ترقی کے لیے کی جانے والی بھرپور کوششیں ہیں۔ رواں سال فروری کے مہینے میں انڈیا نے ڈرون کی درآمد پر پابندی عائد کر دی تھی جس سے صرف عسکری اور ریسرچ کے لیے ضروری ڈرونز کو استثنی حاصل تھا۔ انڈیا کی حکومت کی خواہش ہے کہ ایک مقامی صنعت کو فروغ دیا جائے جو ڈرون کے ساتھ ساتھ اس کا تمام سامان بھی تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ امبر ڈوبے انڈیا کی وزارت برائے سول ایوی ایشن کے سابق جوائنٹ سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ڈرون ملازمت اور معاشی ترقی کے لیے بہترین ثابت ہو سکتے ہیں خصوصا انڈیا کے دور دراز علاقوں میں۔‘ ’انڈیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ کے شعبے تو مضبوط ہیں ہی اور مقامی طور پر ضرورت اور مانگ بھی ہے، تو انڈیا کے پاس سنہ 2030 تک عالمی ڈرون حب بننے کا پورا موقع ہے۔‘

ان کے خیال میں آئندہ تین سال کے دوران انڈیا میں ڈرون کی صنعت میں 50 ارب روپے تک کی سرمایہ کاری ہو گی۔ نیل مہتا آسٹیریا ایرو سپیس کمپنی کے شریک بانی ہیں جو 10 سال سے ڈرون تیار کر رہی ہے۔ وہ حکومت کی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ حکومت کی دلچسپی کی وجہ سے ان کی کمپنی اب دفاعی شعبے کے لیے ڈرون بنانے کے علاوہ نئے شعبوں کی جانب توجہ دے رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میں اب ڈرون کا استعمال بڑھ رہا ہے جس کے اثرات واضح ہو رہے ہیں جو معاشی طور پر بھی سود مند ہیں۔‘ اس وقت انڈیا میں ڈرون ہر قسم کا کام کر رہے ہیں۔ پولیس ٹریفک مانیٹرنگ کے لیے ان کا استعمال کر رہی ہے تو بارڈر سکیورٹی فورس سمگلنگ کی روک تھام کے لیے ان سے کام لے رہی ہے۔ زراعت میں بھی ان کا استعمال عام ہو رہا ہے جہاں ڈرون کو فصلوں کی جانچ پڑتال کے ساتھ ساتھ کھاد اور کیڑے مار دوا کے سپرے کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

تاہم اس شعبے سے جڑی سرمایہ کاری کے باوجود ماہرین احتیاط کی تجویز دے رہے ہیں۔ ڈرون فیڈریشن آف انڈیا کے راجیو کمار نارنگ کا کہنا ہے کہ 2030 تک عالمی ڈرون مرکز بننے کا ارادہ تو ہے لیکن ’میرے خیال میں ہمیں محتاط رہنا ہو گا کیوںکہ ابھی ہمارے پاس اتنی ٹیکنالوجی نہیں۔‘ سویڈن میں ڈرون طیارے نے ہارٹ اٹیک کے دوران ایک شخص کو بچا لیا ان کا کہنا ہے کہ ’انڈسٹری کو ایک ریگولیٹر کی بھی ضرروت ہے جو حفاظتی معاملات کا خیال رکھ سکے اور ڈرونز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے لیے ایئر ٹریفک کنٹرول سسٹم تیار کر سکے۔‘ راجیو کمار نارنگ کے مطابق یہ معاملہ ڈرون کے جحم میں اضافے کے ساتھ ساتھ اہمیت اختیار کرتا جائے گا۔ ’اس کے لیے حکومت کو ہی کوشش کرنی پڑے گی۔ ایک وزارت کو آگے بڑھ کر اس کام کو سنبھالنا ہو گا اگر ہم نے 2030 تک عالمی ڈرون مرکز بننا ہے۔‘ اس وقت انڈیا میں ایسی کمپنیوں کے نیٹ ورک کی بھی کمی ہے جو ڈرون کی تیاری کے لیے درکار تمام سامان تیار کر سکیں۔ متعدد چیزیں، جیسا کہ بیٹریاں، موٹر اور فلائٹ کنٹرول درآمد کیے جا رہے ہیں تاہم حکومت پراعتماد ہے کہ مقامی صنعت کو اگر اچھی ترغیب دی جائے تو یہ معاملہ بھی حل ہو جائے گا۔ امبر ڈوبے کہتے ہیں کہ ’مقامی طور پر خود مختار صنعت بننے میں دو سے تین سال لگ جائیں گے کیوںکہ مارجن کم ہوتا ہے اور مقدار زیادہ ہوتی ہے۔‘ تاہم مقامی کمپنیاں بھی پرامید ہیں کہ ڈرون اور ان کو اڑانے کی مہارت رکھنے والوں کی طلب میں اضافہ ہو گا۔ اندازہ ہے کہ انڈیا کو آئندہ پانچ سال میں پانچ لاکھ تربیت یافتہ ڈرون پائلٹس کی ضرورت ہو گی۔ ’فائیو جی کی آمد کے ساتھ ڈرون ٹیکنالوجی کے پاس ایسا پلیٹ فارم موجود ہو گا جس سے اس کی بھرپور صلاحیت کا فائدہ اٹھایا جا سکے گا خصوصاً زیادہ فاصلے تک پرواز کرنے کے لیے۔‘ چند کمپنیاں ابھی سے ایسے ڈرون استعمال کر رہی ہیں جو مصنوعی ذہانت کی مدد سے خودکار پرواز کر سکتے ہیں۔ کیا ان کی وجہ سے مستقبل میں ڈرون پائلٹ کی ضرورت ختم ہو جائے گی؟ ادیش ناتھ کو زیادہ فکر نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ڈرون کو ہمیشہ ایک پائلٹ کی ضرورت رہے گی جو اس پر نظر رکھ سکے۔ مختلف قسم کے ڈرون کو مختلف ہینڈلنگ کی ضرورت ہوتی ہے اور ابھی مصنوعی ذہانت اتنی زیادہ آگے نہیں بڑھی۔‘

اپنا تبصرہ لکھیں