دنیا کے عجیب و غریب کھانے

یوں تو ہر ملک کی تہذئب و ثقافت کو اجاگر کرنے کے لئے کئی انفرادیت بخش پہلو ہوتے ہیں لیکن ہر ملک کے انواع و اقسام کے رنگا رنگ پکوان بھی اس قوم کے ذوق کے آئینہ دار ہوتے ہیں جو اس ملک کی خاص پہچان کا درجہ رکھتے ہیں یہ نت نئے طریقوں سے تیار کئے جانے والے پکوان وہاں کے باشندوں کے ذوق اور لذت و کام و دہن کی عکاسی کرتے ہیں۔ کیڑے مکوڑے، چوہے سانپ، زندہ آکٹوپس ، سڑی ہوئی سمندری غذا جو ان ممالک میں تو مہنگی اور پسندیدہ غذا ہوتی ہے جبکہ دوسرے خطے کے لوگ اسے ناپسندیدیگی اور کراہیت سے دیکھتے ہیں۔ سجی سنوری ڈش اور خوبصورت نام میں کیا چھپا ہوتا ہے اس کے بارے میں جاننا ضروری ہوتا ہے جیسا کہ یہ ڈش:

Casu Marzu

یہ سارڈینیا کی ایک عجیب و غریب روایتی ڈش ہے جس کا مطلب سڑی ہوئی بدبودار پنیر ہے۔ اسے عام طور پر “Maggot”بھی کہا جاتا ہے۔ اس پنیر میں کیڑے مکوڑوں کے زندہ لاروں کی بہتات ہوتی ہےاور اسے اس وقت کھانے کو ترجیح دی جاتی ہے اس میں موجود لاروے زندہ ہوں۔ اگر یہ لاروے مر جائیں تو اس پنیر کو انسانی استعمال کے لئے زہریلا اور غیر محفوظ رصور کیا جاتا ہے۔ پنیر میں موجود نیم شفاف رنگ کے یہ لاروے ایک تہائی انچ لمبے ہوتے ہیں اور چھ انچ تک اچھل سکتے ہیں۔ جب اس روایتی کھانے کو پیش کیا جاتا ہے تو اکثر لوگ پنیر کھانے سے پہلے اس میں ابلنے والے لاروں کو ایک طرف دھکیل دیتے ہیں اگرچہ انسانی صحت کی وجوہات کی بنا پر اب اس ڈش پر پابندی عائد ہےتاہم یہ سارڈینیا اور اٹلی کی مارکیٹ میں اب بھی با آسانی دستیاب ہوتی ہے۔

Puffer Fish

یہ خطرناک غذا جاپانیوں کی مقبول ترین ڈش ہے۔ “Puffer” کو “Fugo”بھی کہا جاتا ہے۔ جاپانی زبان میں ٖFugo کا مطلب زہریلا ہے۔Pufferایک قسم کی زہریلی مچھلی ہوتی ہے جو انتہائی مہلک اور طاقتور زہریلے مادے “Todrotoxin” سے بھری ہوتی ہے۔ یہ زہریلا مادہ انسانی صحت کے لئے نہایت ہی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ Fugoمچھلی میں موجود یہ زہریلا مادہ دماغ کے اعصابی خلیوں کے برقی سگنل میں خلل پیدا کر دیتا ہے۔ انسان کے ہونٹ، زبان سُن ہو جاتے ہیں۔ انسان پر غنودگی اور غشی طاری ہو جاتی ہےیا پھر وہ مفلوج ہو جاتا ہے۔ایک سنگل مچھلی تقریباً تیس کے قریب انسانوں کو مار سکتی ہے۔ ہر سال درجنوں کی تعداد میں اس ڈش کے رسیا افراد کو اسپتال داخل ہونا پڑتا ہے جن میں کچھ کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس کے زہر کا اب تک کوئی تریاقدریافت نہیں ہوا ہے۔ اس لئے صرف ماہر اور اعلیٰ تربیت یافتہ شیف کو ہی لائسنس شدہ ریسٹورنٹس میں اس مچھلی کو تیار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

Pig Blood Cake

یہ ڈش تائیوان کا مقبول ترین ناشتہ ہے جو تائیوان کی اسٹریٹ مارکیٹ میں بآسانی دستیاب ہوتا ہے۔ اس عجیب و غریب ڈش کو چپچپے چاول اور سور کے خون سے تیار کیا جاتا ہے جسے لکڑی اسٹک کےساتھ پیش کیا جاتا ہے۔تائیوان کی مرغوب غذا کو بالکل اسی طریقے سے کھایا جاتا ہےجیسے کہ آئس کریم یا لالی پاپ وغیرہ۔ ایشیا کے دوسرے خطوں جیسے کہ ملائشیااور سنگاپور میں سور کے کیک کو کیوبز میں بنایا جاتا ہےیا پھر اسے سوپ میں تیار کیا جاتا ہےجس میں سور کے دوسرے اعضاء جیسے آنتیں، معدہ وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس کیک کو انسانی صحت اور جسم میں خون کی کمی کو پورا کرنے کے لئے بہترین سمجھا جاتا ہے۔

Snake’s Whisky

سانپ کی شراب ویت نام کا مقبول ترین ڈرنک ہے۔ کئی برسوں سے ویت نام کے لوگ اس مشروب سے لطف اندوز ہو رہے ہیں کیونکہ طبی خصوصیات کی وجہ سے اسے اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔ اس شراب کو بنانے کے لئے سانپوں اور بچھوؤں کو مہینوں تک چاول سے تیار کردہ الکوحل میں چھوڑ دیا جاتا ہےتا کہ ان کا زہر اس الکوحلک مشروب میں اچھی طرح گھل جائےتاہم سانپ کے زہروالے حصوں کی بالکل بھی پروا نہیں کی جاتی۔کیوں کہ یہ شراب میںEthanol کی موجودگی کی وجہ سے غیر فعال ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ سانپ کی اصل شراب ویت نام میں بنائیجاتی ہے لیکن اب جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی چائنا کے دیگر حصوں میں بھی لوگ اس ڈرنک سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اس شراب کارنگ سانپ کے خون کی وجہ سے ہلکا گلابی ہوتا ہے۔

Sannakji

یہ کوریا کی مشہور ڈش ہےجو رینگتے اور بل کھاتے ہوئے زندہ آکٹوپس پرمشتمل ہوتی ہے۔ ویسے تو زیادہ تر سمندری غذا ؤں کو مردہ کھایا جاتا ہے لیکن اس انوکھی اور عجیب و غریب ڈش میں زندہ آکٹوپس کو ٹکڑوں میں کاٹ کر ساس کے ساتھ فوری طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ زندہ آکٹوپس کو کھانا یقیناً ایک چیلنج ہوتا ہےکیونکہ نہ صرف انسان کو دماغی بلکہ جسمانی طور پر بھی منہ کے اندر زندہ آکٹوپس کے ساتھ نبرد آزماہونا پڑتا ہے ۔ آکٹوپس کو کھانے میں سب سے بڑا مسئلہ اسے چوپ اسٹک پر لپٹنے کا ہوتا ہے اور ایک مرتبہ جب اس لہراتی بل کھاتی مخلوق کو منہ کے اندر لے جایا جاتاہے تو یہ اپنی زندگی بچانے کے لئےزبان، حلق کی اُپری سطح، اور دانتوں پر چپک جاتے ہیں اور انہیں جکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے لئے یہ نہایت دلچسپ تجربہ ہوتا ہےجب وہ ان رینگتے بل کھاتے ہوئے آکٹوپس کو چبانے کی کوشش کرتے ہیں اگر اس ڈش کو احتیاط سے نہ کھایا جائے تو انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ڈش کو “Food Fight” بھی کہا جاتا ہے۔

Balut

یہ انوکھا پکوان فلپائن، کمبوبا اور ویت نام کی گلیوں میں عام پکتا ہوا نظر آتا ہے۔ Balut اصل میں مرغی یا بطخ کا نیم سینچا ہوا انڈا ہوتا ہے جسے ابال کر اسی خول میں نوزائیدہ بطخ کے پر ، چونچ اور ہڈیوں سمیت کھایا جاتا ہے۔ عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پروٹین سے بھرپور تقویت بخش غذا ہےجسے جنوبی ایشیا، تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور ویت نام میں مختلف ناموں سے جانا جاتا ہےاور اسے شراب کے ساتھ پیش کیا جایا ہے۔ فلپائن کے لوگ اسے نمک،لہسن اور کالی مرچ کے ساتھ کھانے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ کچھBalut کھانے کے شوقین افراد اسے مرچوں اور سرکے سے بنے ہوئے ساس کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ Balut کی تیاری کے لئے بطخ کے انڈوں کو گرمی پہنچانے کے لئے ٹوکری میں جمع کر کے دھوپ میں رکھ دیا جاتا ہے۔ تقریباً نو دنوں کے بعد انڈے میں نظر آنے والی روشنی امبریو بننے کے عمل کو ظاہر کرتی ہےجس کا مطلب ہوتا ہے اب یہ انڈہ پکانے، کھانے اور بیچنے کے لئے تیار ہے۔ فلپائنی ثقافت میں یہ پکوان یعنی Balut اتنا ہی مقبول ہے جتنا کہ امریکا میں ہاٹ ڈاگ کو پسند کیا جاتا ہے۔

Kopi Luwak

انڈونیشیا میں تیار کی جانے والی کافی ’’KopiLuwak ‘‘ کو دنیا کی ہنگی ترین کافی تصور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ غیر معمولی طور پر منفرد اور نادر کافی نہ تو میکسیکو کے چٹیل پہاڑوں سے لائی جاتی ہے اور نہ ہی اسے کینیا اور تنزانیہ سے منگوایا جاتا ہےبلکہ اس رجیب و غریب قسم کی کافی کو انڈونیشیائی بلی سے ملتی جلتی مخلوق ’’Luwak ‘‘ کے فضلے سے تیار کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کافی پینے کے رسیا ہیں تب بھی اس کافی کو پینے سے پہلے آپ کو کئی بار سوچنا پڑے گا۔
کافی پیدا کرنے والی یہ ایشیائی بلی صرف کافی چیریز کھاتی ہےلیکن اس کا معدہ اس کے بیجوں کو ہضم نہیں کر سکتا لہٰذا یہ اس طرح خارج ہوتے ہیں جب یہ بیج فوڈ پروسیسنگ کے دوران بلی کے نضام انہضام سے گزرتے ہیں تو معدے سے نکلنے والے Acids اور Proteolytic خامرے معدے کے امائنوایسڈ کو تبدیل کر دیتے ہیں جو ان بیجوں میں جذب ہو جاتے ہیں جس سے ان بیجوں کو ایک خوشنما رنگ اور خوشبو مل جاتی ہے یہ بیج تقریباً 36 گھنٹوں کے بعد بلی کے فضلے سے خارج ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد تمام بیجوں کو اچھی طرح دھویا جاتا ہے اور دھوپ میں سکھایا جاتا ہے۔ جب بیج خشک کو جاتے ہیں تو انہیں ہلکا سا روسٹ کر کے پیسا جاتا ہےاور بڑی تعداد میں شہروں میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ کافی بنانے کا سارا مرحلہ انڈونیشیا کے Java, Sumatra اور Sulawesi جزیروں میں مکمل کیا جاتا ہے۔ اپنے ذائقے، تیزی، کڑک پن اور خوشنمارنگ کی وجہ سے اس کی مانگ بہت زیادہ ہے 2009ء میں اس کی قیمت تقریباً 1400 ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ Kopi Luwak نامی یہ کافی اب بالی، فلپائن اور ویت نام میں بھی تیار کی جارہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ انسانی صحت کے لئے بالکل بھی خطرناک یا نقصان دہ نہیں ہے کیوں کہ اسے احتیاط سے دھونے اور روسٹ کرنے سے اس کے Catsut بیکٹیریا پوری طرح سے تباہ ہو جاتے ہیں۔

Caviar

پرندوں کے گھونسلوں سے تیار کیا ہوا یہ انوکھا اور منفرد سوپ جسے Caviar کہا جاتا ہے چائنا کی مقبول ترین ڈش ہے۔ یہ سوپ جنوب مشرقی ایشیا میں پائے جانے والے ایک چھوٹے سے پرندے جس کا نام آپ نے یقیناً سنا ہو گا یعنی ابابیل کے گھونسلے سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ پرندہ تاریک غاروں کی چٹانوں میں بسیرا کرتا ہےگھونسلا بنانے کے لئے یہ پرندہ شاخوں اور تنکوں کے علاوہ ایک لعاب دار چپچپا مادہ بھی خارج کرتا ہےجو درخت کی شاخوں اور پتوں کو جوڑ کر مضبوط اور اکھٹا رکھنے میں مدد دیتا ہے جو لوگ ابابیل کے گھونسے کاشت کرتے ہیں ان تعلق عام طور پر ان خاندانوں سے ہوتا ہے جو کئی نسلوں سے زراعت کے پیشے سے منسلک ہیں اور اپنی زندگی اسی طریقے سے گزار رہے ہیں۔ ان گھونسلوں کو غار کی دیواروں سے اتار نا انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہےجو ہر سال کئی کاشت کاروں کی موت کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ ان گھونسلوں کو سال میں تقریباً تین مرتبہ تیار کیا جاتا ہے جسے اتارنے سے پہلے ابابیلوں کو وہاں اپنی نسل کو پروان چڑھانے کا وقت دیا جاتاہے۔ جب گھونسلے تیار ہو جاتے ہیں تو انہیں صاف کرنے کے بعد مختلف ریستوران میں بھیج دیا جاتا ہےجہاں اسے گرما گرم چکن کے شوربے میں شامل کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ ابابیل پرندے کے لعاب دار مادے کی وجہ سے یہ ڈش چپ چپی اور گاڑھی دکھائی دیتی ہے۔ کئی مغربی ریستورانوں میں ان گھونسلوں کی قلت کی وجہ سے اسے انتہائی مہنگی ڈش سمجھا جاتا ہے۔ پرندوں کے گھونسلوں کا سوپ چائنا کی 700 برس قدیم اور روائتی ڈش ہے۔ تاہم اس بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ پہلا شخص کون تھا جس نے اس گھونسلے کو کھانے کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ عام طور پر اس سوپ کے بارے میں لوگوں کی رائے ہے کہ یہ سوپ اپنے اندر بے پناہ طبی فوائد اور طاقت رکھتا ہے، یہ جلد کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اور بہت سی بیماریوں جیسے دست، ملیریا وغیرہ کے لئے بھی بہترین علاج ہے۔ اس قدیم سوپ کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہانگ کانگ اور امریکا ان گھونسلوں کو درآمد کرنے والے دو بڑے ملک ہیں۔

Fried Taranstulas

کمبوڈیاکا ایک عام اور مرغوب ناشتہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ مکڑیاں Tavatula کی ایک نسل سے تعلق رکھتی ہیں جن کا سائز ہتھیلی کے برابر ہوتا ہے۔ اس ڈش کی تیاری میں زندہ مکڑی کو نمک، شکر اور MSG کے مکسچر میں ڈال دیا جاتا ہے۔پھر شیف کچلے ہوئے لہسن گرم تیل میں ہلکا سا فرائی کرتا ہےاور تھوڑی دیر بعد مکڑی کو اس میں ڈال کر اس وقت تک فرائی کیا جاتا ہے۔ جب تک یہ خستہ مسالحہ مکڑی کی ٹانگوں میں اچھی طرح نہ لگ جائے۔ یہ کاے رنگ کی بالوں والی مکڑیاں جنگلوں میں پائی جاتی ہیں اور یہ اتنی زیادہ مہنگی ڈش نہیں ہے صرف چند سینٹ میں بآسانی دستیاب ہو جاتی ہے۔

Surstromming

سویدن میں تیار کی جانے والی اس عجیب و غریب غذا کو Soured Herring کہا جاتا ہےلیکن کچھ لوگ جیسے کہ Scandinavian اسے بدبودار مچھلی کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ Baltic Herring نامی مچھلی گہرے پانی میں پائی جاتی ہے۔ اس مچھلی کو بہار کے موسم میں پکڑا جاتا ہےاور پفر فوڈ پروسنگ کے ذریعے بیرل میں ایک یا دو مہینے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس مچھلی کو ٹِن میں پیک کرنے کے بعد بھی پروسنگ کا عمل چھ سے آٹھ مہینے تک مسلسل جاری رہتا ہےجس کی وجہ سے ٹن کے اندر اتنی گیس پیدا ہو جاتی ہے کہ ٹن اندر کا دباؤ بڑھنے کی وجہ سے پھولنے لگتا ہےاس لئے اسے پانی میں کھولا جاتا ہےاور پھر مچھلی کو دھونے اور صاف کرنے کے بعد پیش کیا جاتا ہے۔جب ٹن کو کھولا جاتا ہے تو اس میں سے ناخوشگوار بدبوکا بھبھکا اٹھتا ہے اس لئے عموماً لوگ اسے گھر سے باہر کھولتے ہیں۔ اس کھانے کو عام روائتی طریقے سے مکھن لگی ڈبل روٹی کے سلائس میں رکھ کر بادام کی شکل میں کٹے ہوئے آلو، پیاز وغیرہ کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں