مالش حسن و صحت بڑھانے کا بہترین ذریعہ

یونان اور روم کی قدیم تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خطے کی عورتیں مالش سے اپنے بدن کو خوبصورت بناتی تھیں۔ شادی کے وقت لڑکی والوں کی طرف سے جو خدمت گار لونڈیاں بھیجی جاتی تھیں، وہ مالش کرنے میں ماہر ہوتی تھیں۔ یونانی عورتوں کا یہ خیال صحیح تھا کہ جسم کی مالش خصوصاً کان، ران اور کمر کی مالش سے حسن و شباب قائم رہتا ہے۔ آج بھی یونان کی عورتیں مالش سے اپنے بدن کو خوبصورت اور تندرست رکھتی ہیں۔ قدیم زمانے میں روم کے ہر معزز گھرانے میں مالش کرنے والی ماہر لونڈیاں ہوتی تھیں۔
آج بھی ترکی، اٹلی، یونان اور عرب وغیرہ ممالک میں مالش کے لئے حمام کا رواج ہے۔ جہاں سائینٹفک طریقوں سے بدن کے ہر حصے کی مالش کی جاتی ہے۔
عہد مغلیہ میں سنگترے کا چھلکا، آٹا، بیسن، صندل اور دودھ کی بالائی جو حل کر کے عورتیں چہرے کی مالش کرتی تھیں۔ دولتمند خواتین پستہ، بادام، زعفران، موم اور کسٹم کے پھول دودھ میں گھِس کر چہرے پر مالش کرتی تھیں۔ مصر کی عورتیں دودھ سے مالش کرتی تھیں۔ مشہور حسینہ ملکہ قلوپطرہ کا دودھ سے غسل کرنا مشہور ہے۔ اس کی کنیزیں دودھ میں خوشبودار تیل ملا کر اس کے جسم کی مالش کرتی تھیں۔ جس سے اس کا جسم ہمیشہ بارونق رہتا تھا۔ مصری خواتین اب بھی غسل سے پیشتر پام اور روغنِ زیتون سے جسم پر مالش کرتی ہیں۔شاہِ روم نیرو کی محبوبہ بھی دودھ سے غسل کیا کرتی اور اپنے ہاتھوں اور چہرے کو روغنِ بنفشہ کی مالش کے ذریعے سے ملائم رکھتی تھی۔ مشہور رقاصہ سارا برناڈنے پھٹکڑی، روغن بادام اور عرق گلاب کی مالش سے اپنا حسن و جمال برقرار رکھا۔
قدیم زمانے میں افریقہ کے جنگلی حبشیوں میں دستور تھا کہ شادی سے ایک ماہ پہلے دلہن کی روزانہ مالش کی جاتی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح مالش کرنے سے جسم میں خوبصورتی اور جوانی عود کر آتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ جسم کو تندرست، خوبصورت اور جوان رکھنے کے لئے مالش بہت ضروری ہے۔ مالش سے خون کی رگوں میں رگڑ اور گرمی پیدا ہوتی ہے۔ جس سے خون کا دورہ تیز ہو جاتا ہے اور خون کے زہریلے مادے صاف خون سے الگ ہو جاتے ہیں۔ جو مساموں کے ذریعے سے پسینے کی شکل میں بہہ جاتے ہیں۔ مالش سے جسم میں طاقت اور گرمی پیدا ہوتی ہے۔ جس سے جسم تندرست اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں