پہلا انٹرنیٹ وائرس بنانے والا امریکی یونیورسٹی کا پروفیسر بنا

رابرٹ ٹیپن مورس کے وائرس نے ہزاروں کمپیوٹرز کو متاثر کیا۔ عدالت سے ملنے والی سزا کو تعلیم میں رکاوٹ نہیں بننے دیا، ہارورڈ یونیورسٹی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی، ٹیپن کے والد بیل لیبارٹریز میں کمپیوٹر پروگرام یونیکس تیار کرنے والوں میں شامل تھے۔

انٹرنیٹ کمپیوٹر وائرس ہیکرز کا اہم ترین ہتھیار ہیں۔ یہ بیک وقت ہزاروں کمپیوٹرز میں پہنچ کر انہیں ہیکرز کے کنٹرول میں لے آتے ہیں، اور پھر ان مفتوحہ کمپیوٹرز کے ذریعے ہیکرز اپنے اصل اہداف حاصل کرتے ہیں۔ دنیا کا پہلا انٹرنیٹ کمپیوٹر وائرس ایک امریکی شہری رابرٹ ٹیپن مورس نے بنایا تھا۔ انہیں اس جرم پر سزا بھی ہوئی، لیکن بعد میں وہ امریکا کی ممتاز ترین یونیورسٹی ایم آئی ٹی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ واضح رہے کہ کمپیوٹر وائرس اور انٹرنیٹ وائرس میں فرق ہے۔ کمپیوٹر وائرس کی تاریخ انٹرنیٹ وائرس سے زیادہ پرانی ہے۔ ان میں سے ایک کمپیوٹر وائرس لاہور سے تعلق رکھنے والے دو پاکستانی بھائیوں امجد فاروق علوی اور باسط فاروق علوی نے بنایا تھا۔ ان کے وائرس ’’برین‘‘ نے مائیکروسافٹ ڈسک آپریٹنگ سسٹم (ایم ایس ڈوس) کو متاثر کیا تھا۔ تاہم فی الوقت ہیکنگ اور انٹرنیٹ کا ذکر ہو رہا ہے اور انٹرنیٹ کا پہلا وائرس رابرٹ ٹیپن مورس نے 1988ء میں بنا کر پھیلایا تھا۔
رابرٹ ٹیپن مورس کے والد رابرٹ مورس سینئر امریکا کی معروف ’’بیل لیبارٹری‘‘ میں کام کرتے تھے۔ ،معروف کمپیوٹر پروگرام یونیکس جو بعدمیں لینکس کی کئی اقسام کی بنیاد بنا،کے ڈیزائن اور تیاری میں ان کا نمایاں کردار ہے۔ وہ امریکا کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی میں Cryptographer بھی رہے ہیں جہاں ان کا کام خفیہ کوڈز کو توڑنا تھا۔ رابرٹ مورس سینئر نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر پاس ورڈ توڑنے کے موضوع پر مقالہ بھی لکھا تھا۔ انہوں نے اپنے بیٹے ٹیپن مورس کو اچھی تعلیم دلوائی۔ اس نے 1987ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری لی۔ ٹیپن مورس ابھی زیر تعلیم ہی تھا کہ اس نے 1988ء میں پہلا کمپیوٹر وائرس تیار کیا جو ’’مورس وورم‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ وائرس دو چھوٹے چھوٹے پروگراموں پر مشتمل تھا۔ پہلا پروگرام کمپیوٹر کی زبان C Language میں لکھی گئی 99 لائنوں پر مشتمل تھا۔ یہ کسی بھی کمپیوٹر میں داخل ہو جاتا اور پھر وہاں بیٹھ کر بنیادی وائرس پروگرام کو رسائی کا راستہ فراہم کرتا۔ مورس وائرس کی ایک خاصیت یہ تھی کہ یہ اپنے آپ کو ایک دوسرے کمپیوٹر پر کاپی کر لیتا تھا۔ کاپی ہونے کے بعد یہ اس کمپیوٹر پر موجود پاس ورڈ حاصل کرتا اور مزید کمپیوٹرز تک جا پہنچتا۔ باور کیا جاتا ہے کہ پاس ورڈ توڑنے کے طریقے کے بارے میں معلومات مورس نے اپنے والد کے مقالے سے حاصل کی تھیں۔ چونکہ یہ وائرس انٹرنیٹ کت ذریعے پھیل رہا تھا، اس لیے یہ جلد ہی امریکا کے کئی بڑے اداروں کے کمپیوٹر نیٹ ورکس تک پہنچ گیا۔ وائرس لانچ کرنے کے لیے مورس نے اپنی یونیورسٹی کے بجائے ایم آئی ٹی کا ایک کمپیوٹر استعمال کیا تھا۔
مورس کا بعد میں کہنا تھا کہ وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ اس کا مقصد صرف انٹرنیٹ سیکورٹی کی خامیوں کو واضح کرنا تھا۔ تاہم مورس کے وائرس نے بڑے پیمانے پر کمپیوٹرز کو نقصان پہنچایا۔ وجہ یہ تھی کہ یہ وائرس ہر نئے کمپیوٹر پر پہنچنے کے بعد چیک کرتا تھا کہ اس کہ کوئی کاپی پہلے سے وہاں موجود تو نہیں۔ اصولاً ایک کاپی ایک کاپی پہلے سے موجود ہونے کی صورت میں اسے وہاں پر نئی کاپی تیار کرنے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن مورس کا خیال تھا کہ نیٹ ورک ایڈمنسٹریٹرز وائرس کو دھوکہ دینے کے لیے اسے (یعنی وائرس کو) پہلے سے ایک کاپی موجود ہونے کی غلط اطلاع دے سکتے ہیں۔ لہٰذا اس نے وائرس پروگرام کو ہدایات دیں کہ اگر پہلے سے کاپی موجود بھی ہو تو ایک نئی کاپی متعلقہ کمپیوٹر پر چھوڑ دی جائے۔ اس ہدایت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر کمپیوٹر پر وائرس کی لاتعداد نقول جمع ہوتی گئیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے ان کمپیوٹرز کے تمام ریسورسز ہڑپ کر لیے اور وہ بیٹھ گیا۔ ایسے متاثرہ کمپیوٹرز میں ’’سن مائیکرو سسٹمز‘‘ جیسی بڑی کمپنی کے کمپیوٹرز بھی شامل تھے۔
مورس کے وائرس کے بارے میں پتا چلانا تقریباً ناممکن تھا کہ یہ کہاں سے آیا ہے اور اسے کس نے بھیجا ہے؟ لیکن کچھ عرصے بعد امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے ٹیکنا لوجی رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے رابرٹ ٹیپن مورس کے ایک دوست کی زبان سے یہ بات نکل گئی کہ مورس وائرس سے جو نقصان ہوا، وہ حادثاتی تھا اور اسے بنانے والے کا مقصد کسی کو نشانہ بنانا نہیں تھا۔ باتوں باتوں میں مذکورہ دوست نے یہ بھی بتا دیا کہ وائرس کا تخلیق کار rtm کا لاگ ان نام استعمال کرتا ہے۔ یہ رابرٹ ٹیپن مورس کے نام کامخفف تھا۔ نیویارک ٹائمز کرپورٹر مارک آف کے لیے اس کے بعد حقائق تک پہنچنا زیادہ مشکل نہ تھا۔ اس نے وائرس اور مورس کے درمیان تعلق ڈھوند نکالا اور یہ خبر نیویارک ٹائمز کے صفحہ اول پر شائع ہوئی۔ حتیٰ کہ تین دن تک صدارتی الیکشن کی خبروں سے بھی زیادہ جگہ رابرٹ ٹیپن مورس کے بارے میں خبروں کو ملی۔
ٹیپن مورس پر مقدمہ بنا، جس کے دوران استغاثہ کا کہنا تھا کہ اس کے وائرس کو کمپیوٹر نیٹ ورک سے ہٹانے پر 200 ڈالر سے 53 ہزار ڈالر تک کے اخراجات لوگوں کو برداشت کرنا پڑے ہیں۔ دسمبر 1990ء میں عدالت نے رابرٹ ٹیپن مورس کو 10 ہزار ڈالر جرمانے، 3 برس تک انتظامیہ کی نگرانی میں رہنے اور 400 گھنٹے کمیونٹی سروس کی سزا سنائی۔ انتظامیہ کی نگرانی کا خرچ بھی رابرٹ ٹیپن مورس کو ہی دینا تھا۔ باور کیا جاتا ہے کہ اسے قانونی اخراجات کی مد میں ڈیڑھ لاکھ ڈالر ادا کرنا پڑے۔
تاہم یہ سزا رابرٹ ٹیپن مورس کو آئندہ زندگی میں کامیابیاں حاصل کرنے سے نہیں روک سکی۔ 1995ء میں اس نے آن لائن اسٹورز کا سافٹ ویئر بنانے والی ایک کمپنی شروع کی، جو بعد میں Yahoo کو 4 کروڑ 90 لاکھ ڈالر میں فروخت کی گئی۔ 1999ء میں رابرٹ ٹیپن مورس نے ہارورڈ یونیورسٹی سے اپلائیڈ سائنسز کے شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اسی برس وہ ایم آئی ٹی میں پروفیسر مقرر ہو گیا۔ 2006ء میں یونیورسٹی نے رابرٹ ٹیپن مورس کو استادِدائمی کی حیثیت دے دی۔ یہ حیثیت ان اساتذہ کو دی جاتی ہے، جن کی کارکردگی سے یونیورسٹی مطمئن ہو اور اس کے بعد کسی معقول جواز کے بغیر انہیں ان کے عہدے سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔
مورس وائرس کا مکمل سورس کوڈ ایک ڈسک پر محفوظ کر کے کیلی فورنیا میں کمپیوٹر ہسٹری میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ جس کے ساتھ ایک تختی پر تحریر ہے،
’’اس ڈسک میں مورس انٹرنیٹ وورم پروگرام کا مکمل سورس کوڈ موجود ہے۔ اس چھوٹے سے 99 لائن کے پروگرام نے 2نومبر 1988ء کو انٹرنیٹ کے کئی بڑے حصوں کو مفلوج کر دیا تھا۔ یہ وورم ان کئی ننھے پروگرامز میں سے سب سے پہلا تھا جو انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلتے ہیں‘‘۔

اپنا تبصرہ لکھیں