طبیب نے جنازہ روک لیا اور اپنی مہارت سے مردے میں زندگی لوٹا دی

یحییٰ بن اسحاق ایک ماہر طبیب تھا، جو خود سے دوائیں بنایا کرتا تھا۔ ایک دن وہ اپنی دکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے سامنے سے ایک جنازے کا گزر ہوا۔ جنازے پر جب اس کی نظر پڑی تو اس کی زبان سے باآواز بلند یہ جملہ نکلا:
’’اے میت کے گھر والو! تمہارا یہ آدمی ابھی بقید حیات ہے، تمہارے لیے اسے دفن کرنا جائز نہیں۔‘‘
جنازے کے ساتھ چلنے والے لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا: ’’اس طبیب کی بات کوئی نقصان دہ تو نہیں، چلو ہم اس طبیب کو اپنا مردہ دکھلاتے ہیں اور اس طرح اس کا امتحان بھی لے لیں گے، اگر مردہ زندہ ہے تو طبیب کی بات صحیح ہے، اور اگر مردہ ہو گا تو پھراسے دفنانے سے ہمیں کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔‘‘
چنانچہ لوگوں نے طبیب کو بلایا اور اس سے پوچھا: ’’تم نے جو بات کہی ہے اس کی وضاحت کریں۔‘‘
طبیب نے ان سے مردہ گھر واپس لے چلنے کو کہا۔ گھر پہنچ کر میت کا کفن نکال کر اسے غسل خانے میں داخل کیا اور اس پر گرم پانی ڈالنے لگا اور نیم گرم پانی میں کچھ سفوف اور دیگر دوائیں ملا کر وہ مردے کو نہلانے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد اس کے جسم میں تھوڑی سی حرکت ہوئی۔
طبیب خوشی سے چیخ اٹھا: ’’مردے کی زندگی کی بشارت قبول کرو۔‘‘
پھر طبیب تسلسل سے مردے کا علاج معالجہ کرنے لگا یہاں تک کہ اس کو زندگی مل گئی اور وہ صحیح ہو گیا۔
یہ واقعہ طبیب کی مہارت و قابلیت کا مظہر تھا، جس نے لوگوں میں جنگل کی آگ کی طرح شہرت پائی۔ بعد میں جب طبیب سے پوچھا گیا کہ آخر کس بنیاد پر اس نے جنازہ دیکھ کر سمجھ لیا کہ وہ مردہ نہیں بلکہ زندہ انسان ہے؟ تو اس نے بتایا:
’’میں نے دیکھا کہ اس کے پاؤں کھڑے ہیں، حالانکہ مردے کے پاؤں سیدھے ہوتے ہیں، اس لیے میں نے اندازہ کر لیا کہ یہ مردہ نہیں ہے اور میرا یہ خیال درست نکلا۔‘‘

(بحوالہ: نوادرمن التاریخ144/1:)

اپنا تبصرہ لکھیں