The fall of Dhaka! A painful wound

سقوطِ ڈھاکہ!             ایک رِستہ ہوا زخم

ذیشان احمد

۱۶ دسمبر ۲۰۲۲ء

”کوئی قوم امریکا دشمنی میں تو شاید زندہ رہ جائے لیکن جس نے امریکا کو دوست سمجھ لیا وہ قوم تباہ ہو گئی۔“

یہ وہ تاریخی فقرہ ہے جو ضعیف العمر امریکی دانشور ہنری الفریڈ کسنجر نے امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر عابدہ حسین سے کہا تھا۔ ہنری کسنجر 1923ء کو ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، اس وقت ان کی عمر 99 برس ہے۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن کے دورِ حکومت میں یہ ان کی کابینہ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ پاکستان کے بیشتر حکمران پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے ہنری کسنجر سے مشاورت کرتے اور ان پر عمل کرتے رہے ہیں۔ 1976ء میں ہنری کسنجر نے بطور امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ پاکستان کا دورہ کیا اور اس دورے میں انہوں نے پاکستان کو امریکی احکامات سے آگاہ کیا، انہوں نے لاہور میں وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو جوہری ہتھیار بنانے سے باز رہنے کا بھی حکم دیا جسے بھٹو نے مسترد کر دیا، بھٹو کے اس انکار پر کسنجر نے بھٹو کو عبرتناک انجام کی ”وعید“ سنائی اور پھر تین برس بعد 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔
نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں جب عابدہ حسین نے واشنگٹن میں ہنری کسنجر سے پوچھا کہ پاکستان کو سی ٹی بی ٹی پر دستخط کر دینے چاہیے؟ تو ہنری کسنجر نے جواب دیا بالکل نہیں! کسنجر کا یہ جواب غیر متوقع تھا کیوں کہ جب ہنری کسنجر حکومت میں تھے تب انہوں نے پاکستان کو جوہری صلاحیت سے باز رکھنے کے لیے سرتوڑ کوششیں کی تھیں، لیکن آج وہی کسنجر پاکستان کو اپنی جوہری صلاحیت بچا کر رکھنے کا مشورہ دے رہا تھا۔ عابدہ حسین نے جب اپنی حیرت کا اظہار کیا تو ہنری کسنجر نے کہا: ”وہ اُس وقت کی بات تھی اور یہ اِس وقت کا مشورہ ہے، تم لوگ یہ بات جان لو کہ اگر تمہارے پاس نیوکلیئر بم نہ رہا تو بھارت تمہیں نیست و نابود کر دے گا۔“ اس پر عابدہ حسین نے کہا کہ ہمیں امریکا سے اپنی دوستی بھی عزیز ہے، ہم اپنے امریکی دوستوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ اس پر ہنری کسنجر نے درج بالا وہ تاریخی فقرہ کہا تھا جو امریکی فکر اور ذہنیت کا مکمل احاطہ کرتا ہے کہ: ”کوئی قوم امریکا دشمنی میں تو شاید زندہ رہ جائے لیکن جس نے امریکا کو دوست سمجھ لیا وہ قوم تباہ ہو گئی۔“
ہنری کسنجر 1971ء کی پاک بھارت جنگ اور سقوطِ ڈھاکہ کے عینی شاہد ہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کے لیے انہوں نے دونوں ممالک کے متعدد دورے کیے۔ وہ 1971ء کی جنگ پر ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسنجر ایک دانشور اور سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک قدآور مصنف بھی ہیں وہ اب تک متعدد کتب تصنیف کر چکے ہیں۔ ان کی کتاب White House Years نے تو طوفان برپا کر دیا تھا یہ کتاب کئی برسوں تک بیسٹ سیلر کتاب رہی ہے اس کتاب کا Chapter-21 ہمارے موضوع سے تعلق رکھتا ہے۔ کتاب کا یہ باب ”پاک بھارت جنگ“ پر مبنی ہے، اس باب میں کسنجر نے جنگ کے اسباب و محرکات کا جائزہ لیا ہے، اس میں انہوں نے بھارتی مزاج اور پاکستانی حکمرانوں کی سوچ اور رویے پر بھی کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے۔ باب کے شروع میں ہنری کسنجر پاک امریکا تعلقات سے متعلق لکھتے ہیں کہ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی امریکا کا غیر مشروط حلیف چلا آ رہا ہے۔ وہ اس دوستی کی خاطر روس کو بھی پیٹھ دکھاتا رہا ہے۔ روس نے وزیراعظم لیاقت علی خاں کو سرکاری دعوت پر اپنے ہاں مدعو کیا مگر انہوں نے اس دعوت کو اہمیت نہ دی اور روس کے بجائے امریکا چلے آئے۔ اس کے برعکس بھارت نے روس کے ساتھ پینگیں بڑھانا شروع کر دیں اور وہ خطے میں روس کے ایک طاقتور حلیف کے طور پر ابھرنے لگا۔ امریکا پاکستان کو اس لیے بھی پسند کرتا تھا کہ اس نے بہت رازداری کے ساتھ امریکا و چین کو ایک دوسرے کے قریب کیا، دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار امریکا اور چین کو ایک ٹیبل پر بٹھانے کا سہرا پاکستان کے سر ہی جاتا ہے۔ اتنا چہیتا اور مقبول ہونے کے باوجود جب عمل کا وقت آیا تو امریکا پاکستان کی بجائے بھارت کی طرف جھک گیا، اس کی ہمدردیاں بنگلہ دیش کی تحریک کی ساتھ ہو گئیں اور اس کا دوست پاکستان دنیا میں اکیلا رہ گیا۔
کسنجر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سی آئی اے نے وائٹ ہاؤس کو رپورٹ پیش کی کہ بھارت مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں کو اپنی سرزمینوں پر عسکری تربیت دے رہا ہے جنہیں بعد ازاں مشرقی پاکستان بھیجا جائے گا جہاں وہ مسلح کارروائیاں کریں گے۔ اپریل 1971ء میں ہمیں اطلاع ملی کہ بھارت نے دو ہزار تربیت یافتہ باغیوں کو مشرقی پاکستان میں داخل کر دیا ہے۔ اس نازک صورت حال میں امریکا کو پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا اور بھارت پر دباؤ ڈال کر اسے اس معاملے سے دور رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی مگر امریکی وزارتِ خارجہ نے صدر نکسن کے علم میں لائے بغیر ہی اسی ماہ پاکستان کو اسلحہ کی فراہمی روک دی اور اس کی اقتصادی امداد بھی بند کر دی۔ امریکا کے اپنے دوست پاکستان کے ساتھ اس رویے کے برعکس روس نے اپنے دوست بھارت کو پاکستان پر حملے کی کھلی اجازت دے دی، روس نے بھارت کو یہ پیغام بھی دیا کہ وہ مشرقی پاکستان میں کارروائی کرنا چاہتا ہے تو کھل کر کرے، جو عالمی طاقت اس سلسلے میں مزاحمت کرے گی روس اس سے نمٹ لے گا۔ یہاں تک کہ اگر چین نے بھی پاکستان کا ساتھ دینا چاہا تو روس اپنی پوری طاقت سے اسے باز رکھے گا۔ صورت حال اس قدر خراب ہو جانے کے بعد صدر نکسن نے مجھے حکم دیا کہ میں پاک بھارت قیادت سے ملنے جنوبی ایشیاء جاؤں اور دونوں قیادت سے بات چیت کر کے کوئی درمیانہ راستہ نکالوں تا کہ معاملہ جنگ تک نہ پہنچے، لہٰذا میں اس سلسلے میں دورے پر نکل گیا، میں پہلے دہلی گیا وہاں جا کر دیکھا تو حالات ہماری توقعات سے بڑھ کر خراب تھے، بھارت جنگ کرنے کے علاوہ کسی اور صورت پر آمادہ نہیں تھا، بس وہ بہتر وقت کا انتظار کر رہا ہے۔ اس کے بعد میں پاکستانی قیادت کو سمجھانے کے لیے پاکستان گیا، میں اسلام آباد میں صدر پاکستان جنرل یحیٰی خان سے بھی ملا اور انہیں حالات سے آگاہ کیا اور سمجھایا کہ بھارت جنگ کے سوا کوئی اور بات نہیں کر رہا ہے، وہ کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہے۔ مگر میں نے محسوس کیا کہ جنرل یحیٰی خان اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہے تھے شاید انہیں اس بات کا یقین تھا کہ بھارت کسی صورت حملہ نہیں کرے گا یا پھر وہ جان بوجھ کر چشم پوشی کا مظاہرہ کر رہے تھے اور اس معاملے کو سنگین ہونے دینا چاہتے تھے۔ ہنری کسنجر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ نومبر 1971ء میں صدر یحیٰی خان نے امریکی صدر نکسن سے کہا تھا کہ وہ مارچ 1972ء میں مشرقی پاکستان کو آزاد کر دیں گے۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ جان لینا ضروری ہے کہ جنرل یحیٰی خان کا اس معاملے سے آنکھیں چرانے کی کیا وجوہات تھیں اور کیوں بار بار تنبیہ کے باوجود وہ غفلت کا مظاہرہ کر رہے تھے؟ قارئینِ کرام! قیام پاکستان کے بعد سے ہی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں اختیارات کی رسہ کشی جاری تھی، مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے ہمیشہ اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی کوشش کی تھی، انہیں یہ خوف لاحق تھا کہ ملک میں اکثریت مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی ہے اور انہی بنگالیوں کی سیاسی سمجھ اور بصیرت کی بدولت تحریکِ پاکستان کامیاب ہوئی تھی، یہ لوگ اقتدار کے مضبوط دعوے دار خیال کیے جاتے تھے اور ملک میں رائج جمہوری نظام مملکت میں اقتدار روایتی طور پر اسی اکثریت کے گرد گھومنا تھا، لہٰذا بنگالیوں کو دیوار سے لگائے رکھنے کی پالیسی کو اپنایا گیا اور جنرل ایوب خان کے دور میں یہ سازشیں عروج پر پہنچ گئیں۔ جمعہ خان صوفی نے اپنی کتاب ”فریبِ ناتمام“ میں ولی خان کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب 1968ء میں ایوب خان کے دورِ حکومت میں گول میز کانفرنس ناکام ہوئی تو ایوب خان نے ولی خان کو بلا کر کہا کہ اگر تم پاکستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے خواہاں ہو تو بنگالیوں سے جان چھڑوا لو۔ جسٹس محمد منیر نے بھی اپنی کتاب ”From Jinnah to Zia“ میں اسی قسم کی بات لکھی ہے کہ جنرل ایوب خان نے ان سے کہا تھا کہ آپ بنگالی رہنماؤں کو قائل کریں کہ وہ پاکستان سے علیحدگی اختیار کر لیں۔ اصولی طور پر ملک کے دونوں حصوں کے ساتھ متوازی سلوک کیا جانا چاہیے تھا ملک کے دونوں حصوں ک برابری کا درجہ دینا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ ہوا، مغربی پاکستان میں ایوبی دورِ حکومت میں صنعتوں کا جال بچھا دیا گیا، ڈیم بنائے گئے جس کی وجہ سے آج بھی ایوب خان کے دور کو ملک کا سنہری دور گردانا جاتا ہے، مگر ان کے دور میں ہونے والی ترقی صرف مغربی پاکستان کے لیے ہی تھی، مشرقی پاکستان اس ترقی سے محروم تھا، دارالحکومت یا تو کراچی ہو سکتا تھا یا اسلام آباد، ڈھاکہ کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا تھا کہ پایۂ تخت تو درکنار دفاعی مرکز بھی وہاں بنایا جا سکے۔ یہ اعزازات مغربی پاکستان کو ہی حاصل تھے گویا یہ سگا تھا اور وہ سوتیلا۔
مارچ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں کریک ڈاؤن کے دوران شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان میں منتقل کر دیا گیا، جب سولہ دسمبر کو مشرقی پاکستان نے علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش کی حیثیت سے اپنی آزادی کا اعلان کیا تو یہاں مغربی پاکستان میں فوج نے ذوالفقار علی بھٹو کو صدر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا اور عوامی مطالبے کے باعث خود واپس بیرکوں میں چلی گئی۔ اس دوران ذوالفقار علی بھٹو شیخ مجیب الرحمٰن کے پاس ان سے ملنے گئے، شیخ مجیب نے ذوالفقار علی بھٹو سے پوچھا کہ وہ وہاں کیوں آئے ہیں؟ بھٹو نے جواب دیا کہ اب سے پاکستان کے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر وہی ہیں۔ شیخ مجیب نے پوچھا یہ کیسے ہوا؟ بھٹو نے انہیں بتایا کہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں مداخلت کی وہ علیحدہ ہو گیا، پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور یحییٰ خان نے استعفیٰ دے دیا۔ شیخ مجیب نے چلا کر کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تم صدر کیسے بن سکتے ہو؟ تم انتخابات ہارے تھے، میں اکثریت کا منتخب کردہ رہنما ہوں۔ مجھے فوراً کسی ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر لے چلو میں اس عمل سے لاتعلقی کا اعلان کر دوں گا اور مشرقی پاکستان کو اسی حیثیت میں واپس لے آؤں گا جس میں وہ پہلے تھا۔ میں ان تمام چیزوں کو کالعدم قرار دے دوں گا اور یوں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر ان کی تجویز پر عمل نہ کیا گیا شاید اشرافیہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش ہی بنے رہنے دینا چاہتی تھی۔
کسنجر اپنی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں کہ 23 جولائی 1971ء کو امریکی وزارت خارجہ میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں یہ طے پایا کہ اگر چین نے پاکستان کا ساتھ دینے کی کوشش کی تو امریکا روس کے ساتھ مل جائے گا، اور دونوں عالمی طاقتیں مل کر پاکستان کے خلاف بھارت کو فوجی امداد فراہم کریں گی۔ قارئین کرام! یہ تھی امریکا کی دوستی کہ وہ اپنے دوست کے مقابلے میں اپنے دیرینہ دشمن روس کے ساتھ مل جانے کے لیے تیار تھا، ہنری کسنجر ٹھیک کہتے ہیں کہ جس نے امریکا کو دوست سمجھ لیا وہ تباہ ہو گیا۔ امریکا اور پاکستان کی یہ دوستی کس طرح ہوئی یہ بھی ایک الگ داستان ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد دو سال تک کسی نے پاکستان کو اہمیت نہ دی، پاکستان عالمی طاقتوں کی طرف دیکھتا رہا مگر کوئی اسے قابل توجہ نہیں سمجھتا تھا۔ پھر پہلی مرتبہ 1949ء کو روس نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کو سرکاری دورے پر مدعو کیا جسے انہوں نے قبول کر لیا، ماسکو کی دعوت قبول کرنے کے بعد پاکستان راتوں رات امریکا کی نظروں میں اہم ہو گیا۔ ہم نے جیسے ہی دو عالمی قوتوں میں سے ایک طرف جھکنے پر آمادگی ظاہر کی تو دوسری طرف سے فوراً ہم پر نظرِ کرم ہونا شروع ہو گئی۔ امریکی صدر ٹرومین نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو امریکی دورے کی دعوت دی۔ اس دعوت کو بھی منظور کر لیا گیا اور پھر 3 مئی 1950ء کو روسی دعوت کو ٹھکرا کر وزیر اعظم لیاقت علی خان امریکی صدر کے خصوصی طیارے میں سوار ہوئے اور واشنگٹن پہنچ گئے۔ یوں ہم روس کو درخورِ اعتنا نہ سمجھتے ہوئے امریکی بلاک کا حصہ بن گئے۔ اگر ہم نے اس وقت درست فیصلہ کیا ہوتا تو شاید پاکستان دو لخت کبھی نہ ہوتا اور بھارت جس عالمی طاقت کے زعم میں سورما بنا ہوا تھا اسے اتنی شہ کبھی نہ ملتی، بلکہ وہی عالمی طاقت اپنے دو دوستوں کی باہمی دشمنی کے درمیان حائل ہو جاتا اور اور اکہتر کی جنگ ہونے ہی نہ دیتا اس کے برعکس ہمارا دوست امریکا آج تک ہمیں ڈھس رہا ہے، اور ہم اپنے زخم چاٹ رہے ہیں، ستر برس پہلے جو ہماری روش تھی، آج بھی وہی ہے۔ وقت کے تھپیڑے ہمیں سبق سکھا رہے ہیں اور ہم سیکھ بھی رہے ہیں مگر ہر بار ہم غلطیوں کو دہرا کر وہ سبق ازبر کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں