تلاش کرنے والے پہلے سائبرگ کاکروچ

مستقبل قریب میں کوئی زلزلہ آئے اور زندہ بچ جانے والے ٹنوں ملبے کے نیچے پھنس جائیں تو انھیں تلاش کرنے والے پہلے سائبرگ کاکروچ سکتے ہیں۔ زلزلہ کے نتیجے میں ٹنوں ملبے کے نیچے پھنس جانے والوں کو تلاش کرنا آسان ہوگیا ترقی کی آندھی شاید وہ واحد آندھی ہے کہ جتنی زور سے چلتی ہے اتنی ہی سودمند ہوتی ہے۔یہ جاپانی محققین کی حالیہ پیش رفت کا ایک ممکنہ اطلاق ہے جس نے کیڑے پر شمسی خلیوں اور الیکٹرانکس کے ’’ بیک پیک ‘‘ کو نصب کرنے اور ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ان کی حرکت کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ۔ کینجیرو فوکوڈا اور جاپانی ریسرچ کمپنی ریکن کی تھن فلم ڈیوائس لیبارٹری میں ان کی ٹیم نے ایک لچک دار سولر سیل فلم تیار کی جس کی موٹائی 4 مائیکرون ہے، جو انسانی بالوں کی چوڑائی کی تقریباً 1/25 ہے اور کیڑے کی کمر پر فٹ ہو سکتی ہے۔ فلم روچ کو آزادانہ طور پر حرکت کرنے کی اجازت دیتی ہے جبکہ شمسی خلیہ سگنلز کو پروسیس کرنے اور بھیجنے کے لیے کافی طاقت پیدا کرتا ہے۔

یہ کام سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنولوجیکل یونیورسٹی میں حشرات پر قابو پانے کے تجربات پر مبنی ہے اور اس کا نتیجہ ایک دن سائبرگ کیڑوں کی صورت میں نکل سکتا ہے جو روبوٹ کے مقابلے میں زیادہ مؤثر انداز میں علاقوں میں داخل ہو سکتے ہیں۔ فوکوڈا کا کہنا ہے : ’’چھوٹے روبوٹ کے اندر کی بیٹریاں تیزی سے ختم ہو جاتی ہیں، اس لیے تلاش کا وقت کم ہو جاتا ہے۔ ایک اہم فائدہ (سائبرگ کیڑے کا) یہ ہے کہ جب کسی کیڑے کی حرکت کی بات آتی ہے تو کیڑے خود کو حرکت دینے کا سبب بنتا ہے اس لیے زیادہ بجلی درکار نہیں ہے۔‘‘

فوکوڈا اور ان کی ٹیم نے تجربات کے لیے مڈغاسکر میں بسنے والے کاکروچ کا انتخاب کیا کیونکہ وہ سامان لے جانے کے لیے کافی بڑے ہیں اور اس کے کوئی پر نہیں ہیں جو راستے میں آ جائیں۔ جب بیگ اور فلم کو ان کی پیٹھ پر چپکا دیا جاتا ہے،کیڑے چھوٹی رکاوٹوں کو عبور کر سکتے ہیں یا پلٹ جانے پر خود کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں