دنیا کی حیرت انگیز شادیاں

دنیا بھر میں پائی جانے والی مختلف تہذیب و ثقافت میں شادی کے بندھن میں بندھنے کا اپنا ہی رنگ ہوتا ہے جو ہر خطے میں بدلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ہر خطے اور قوم کے اپنے رسوم و رواج ہوتے ہیں۔ کہیں دلچسپ تو کہیں حیرت انگیز، مخصوص روایتی لباس، کھانے اور سنگیت ان شادی کی تقریبات کو یادگار بنا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں انہیں خوب دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ لیکن بعض ممالک میں شادی کی یہ رسومات نہایت دلچسپ اور عجیب و غریب ہوتی ہیں۔

کوریا:

کورین لوگ اپنے رواج کے مطابق شادی کی تقریبات کے دوران دولہا کو گھیر لیتے ہیں اس کے دوست احباب دلہے کے موزے اتار دیتے ہیں اور اس کے ٹخنوں کو رسی باندھ کر اس کے پیروں کے تلووں کو پیلے رنگ کی Corvina مچھلی سے پیٹتے ہیں، تا کہ دلہا کو نئے سفر پر چلنے کے لیے مضبوط بنایا جا سکے۔ کوریائی باشندوں کا اعتقاد ہے کہ اگر دلہا اپنی شادی میں بہت زیادہ خوش اور مسکراتا ہوا نظر آئے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے یہاں پیدا ہونے والا پہلا بچہ بیٹی ہو گی۔ شادی کی رسومات کے اختتام پر دلہا کے والدین دلہن پر خشک میوہ جات مثلاً مونگ پھلیاں، اخروٹ، کشمش اور آلو بخارے نچھاور کرتے ہیں، اس دوران اگر دلہن کچھ اخروٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ دلہن کے یہاں بہت سارے بیٹے پیدا ہوں گے۔ اسی طرح شادی کی تقریب کے دوران مہمان بھی دلہا دلہن پر مختلف اشیاء نچھاور کرتے ہیں، جن میں شاہ بلوط کے پتے جسے عزت و تکریم کی علامت سمجھا جاتا ہے اور خشک لال کھجوریں جنہیں محبت اور جوش و جذبے کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔

جاپان:

جاپانی شادی کی ایک اہم رسم San-San-Kudo یا Sakazuki کہلاتی ہے۔ جاپانی زبان میں San-San-Kudo کا مطلب تین مرتبہ تین ہے۔ شانٹو مندر میں منائی جانے والی اس تقریب میں دلہا دلہن کو چاولوں سے تیار کئے جانے والے الکحل مشروب کی نو پیالیاں پینی پڑتی ہیں، جو پیالیاں اس رسم میں استعمال کی جاتی ہیں انہیں Sakazuki کہتے ہیں۔ یہ تینوں پیالیاں مختلف سائز کی ہوتی ہیں، پہلی تین پیالیاں چھوٹے سائز کی ہوتی ہیں، تین نمبر کا انتخاب ایک خاص مقصد کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ ایک انفرادی نمبر ہوتا ہے جسے بدھ مت میں بہت اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔ ان کا یقین ہے کہ یہ ایک مقدس ہندسہ ہے جس کا مطلب ہے تین گنا خوشی۔

اسکاٹ لینڈ:

اس خطے میں شادی کے موقع پر دلہن کو کالا یا گندہ کرنے کی اک انوکھی اور دلچسپ رسم کا رواج ہے۔ جس میں دلہن کے دوست و احباب کا ایک گروہ ازراہ مذاق اسے اغواء کرتا ہے اور پھر مختلف کھانے کی اشیاء جن میں مکھن، پنیر، نوڈلز، مچھلی، ساسز وغیرہ سے تیار کردہ بدبودار سیال کو دلہن پر انڈیل کر اسے گندہ کر دیا جاتا ہے اس کے بعد دلہن کو سارے علاقے میں گھومایا جاتا ہے تا کہ تمام لوگ اس گندی اور میلی کچیلی دلہن کو دیکھ سکیں۔ اسی طرح اسکاٹ لینڈ میں پیر دھلوانے کی قدیم رسم بھی رائج ہے۔ یہ رسم شادی والے دن ہوتی ہے، اس موقع پر تمام لوگ دلہن کے پیر دھلوانے کے لیے اکھٹے ہوتے ہیں۔
تقریب شروع کرنے سے پہلے کسی شادی شدہ عورت کی انگوٹھی کو اس ٹب میں ڈال دیا جاتا ہے اور جو پہلا شخص اس انگوٹھی کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اگلی مرتبہ اس شخص کی شادی ہو گی۔ اسی طرح اسکاٹش دلہن جب اپنے نئے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے، تو جو کے آٹے سے بنا ہوا بسکٹ یا کیک اس کے سر پر توڑا جاتا ہے اور اس کے بعد اس کے ٹوٹے ہوئے حصوں کو وہاں موجود تمام لوگوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ اس رسم کے بعد دلہا دلہن کو دہلیز پار کراتا ہے۔

افریقہ:

اس خطے میں شادیوں کو دو زندگیوں، خاندانوں، قبائل اور دو علاقوں کا ملاپ تصور کیا جاتا ہے۔ اس اجتماعی فکر کے علاوہ افریقہ کے ہر خطے میں شادی بیاہ کی رسمیں ایک دوسرے یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ افریقہ میں چونکہ کم عمری میں شادی کا رواج ہے اس لئے شادی سے پہلے بہت سے عملی اقدامات کئے جاتے ہیں، جن میں لڑکی کو کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، تا کہ وہ شادی کے بعد اپنے جیون ساتھی کے خوشگوار زندگی گزار سکے۔ اس مقصد کے لئے لڑکیوں کو باقاعدہ وہاں کے مقامی تربیتی اسکولوں میں بھیجا جاتا ہے، جہاں انہیں کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے کے ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ افریقہ میں پائی جانے والی بہت سی نسلوں میں نئی نویلی دلہنوں کو شادی شدہ خواتین سے گفتگو کرنے کے لئے خفیہ کوڈز اور زبان سکھائی جاتی ہےافریقہ میں شادی کی رسومات دلچسپ اور رنگا رنگ ہوتی ہیں، جن میں قبیلے کے تمام لوگ شرکت کرتے ہیں اس موقعے پر خصوصی دھنوں اور ناچ گانے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور یہ تقریب کئی روز تک جاری رہتی ہے۔

ایتھوپیا:

اس ملک میں شادی کی روایات نہایت دلچسپ اور منفرد ہوتی ہیں۔ ایتھوپیا کی کیر و قوم کے لوگ شادی کے موقع پر دلہن کے جسم کو مختلف قسم کے نقش و نگار علاماتی نشانات اور ٹیٹوز سے سجاتے ہیں۔

کرغیزستان:

بہت سی خواتین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا دولہا سفید گھوڑے پر بیٹھ کر آئے اور انہیں بیاہ کر لے جائے، لیکن کرغیزستان میں ان کے سپنوں کا شہزادہ آتا تو ہے لیکن دولہا بن کر نہیں بلکہ ڈاکو بن کر آتا ہے اور اپنی پسند کی لڑکی کو ڈولی میں بیٹھا کر لے جانے کے بجائے اغواء کر کے لے جاتا ہے۔ کرغیزستان میں یہ عجیب و غریب سفاکانہ روایت برسوں سے قائم ہے، جس کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔ وسطی ایشیاء کے کئی علاقوں اور افریقہ کے چند ملکوں میں بھی یہ روایت اب تک قائم ہے جو Ala Kachuu کہلاتی ہے۔ بعض ممالک میں اس روایتی اور وحشیانہ طرز عمل کو جنسی جرم سمجھا جاتا ہے لیکن کرغیزستان میں اس رواج کو آدمی اپنی بہادری اور مردانگی تصور کرتے ہوئے اسے باعث فخر قرار دیتے ہیں۔ کرغیزستان میں جب ان خواتین کو زبردستی اغواء کر کے اپنے گھر لے جایا جاتا ہے تو نئے گھر کی خواتین اس کے سر پر سفید دوپٹہ یا اسکارف ڈال دیتی ہیں جسے Jooluk کہتے ہیں جو اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ اس نئی اغواء شدہ لڑکی کو اس گھر میں پوری طرح سے قبول کر لیا گیا ہے۔ جبکہ اغواء شدہ لڑکی کے ماں باپ کو راضی کرنے کے لئے بھی زور زبردستی اور دھونس دھمکی سے کام لیا جاتا ہے، تا کہ اس لڑکے کو وہ بطور داماد قبول کر لیں۔ لڑکی کے گھر والے اکثر اس خوف کی وجہ سے کہ شاید اس لڑکی کو دوبارہ کوئی اچھا اور مناسب رشتہ نہ مل پائے اس لڑکے کو قبول کر لیتے ہیں۔ اعداد شمار کے مطابق کرغیزستان میں نصف سے زیادہ شادیاں اسی روایتی انداز میں ہوتی ہیں۔ یہاں خواتین کے اغواء کی دو وجوہات بتائی جاتی ہیں پہلی یہ کہ مرد اس عمل کو زیادہ آسان اور دلیرانہ تصور کرتے ہیں، کیوں کہ جو لڑکی انہیں پسند آئی اسے اغواء کر لیا، دوسرا یہ کہ اس طرح سے وہ شادی بیاہ پر کیے جانے والے اخراجات سے بھی بچ جاتے ہیں۔

کینیا:

یہاں کے Sambura قبیلے میں شادی کی تقریبات اور رسمیں ایک انوکھے اور دلچسپ سلسلے پر مشتمل ہوتی ہیں، جن میں دلہن کے گھر والوں کی جانب سے تحائف اور جہیز کی تیاری کو بہت اہمیت دی جاتی ہے جن میں دو بکرے کی کھالیں، دو پیتل کے بُندے، ایک دودھ رکھنے کا بڑا برتن، ایک دنبہ اور شادی کی تقریبات کے لئے بے شمار تحائف ہوتے ہیں۔
دلہن بننے والی لڑکی اپنے دلہا کے بارے میں بہت کم جانتی ہے کہ وہ اس سے کتنا بڑا ہے اور کیسا ہے۔ اس موقع پر دلہن اپنا سارا سامان خود ہی سمیٹ کر رکھتی ہے۔ اس کے بعد وہ اپنا لباس عروسی اور زیورات پہن کر تیار ہو جاتی ہے۔ شادی کی تقریب میں دلہن کی والدہ اس کے سر اور گردن پرتھوک پھینکتی ہے جسے بزرگوں کی جانب سے دعائیہ علامت سمجھا جاتا ہے۔ کینیا سے تعلق رکھنے والی یہ 13 سے 16 برس کی کم عمریں دلہنیں جب اپنے شوہر کے ساتھ اپنے گھر سے رخصت ہوتی ہیں تو پیچھے پلٹ کر اپنے والدین کے گھر کو نہیں دیکھتیں انہیں خوف ہوتا ہے کہ کہیں وہ پتھر کی نہ بن جائیں۔

نمیبیا:

افریقہ کے اس علاقے سے تعلق رکھنے والے لوگ شادی کی تقریب سے پہلے دلہن کو اغواء کر کے لے جاتے ہیں، پھر مختلف قسم کے زیورات و سنگھار سے اسے اس کی زیبائش کی جاتی ہے اس کے سر پر چمڑے کی ٹوپی پہنائی جاتی ہے تقریب کے بعد دلہن کو گھر لایا جاتا ہے جہاں دولہا کے خاندان کے افراد اسے بیوی کی حیثیت سے گھر کے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد گائے سے حاصل کردہ مکھن کی چکنائی کو دلہن کے جسم پر ملا جاتا ہے۔ یہ عمل اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دلہن کو قبول کرتے ہوئے اسے خوش آمدید کہا جا رہا ہے اور اب یہ اس خاندان کا فرد ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں