The-Supreme-Court-legalized-the-new-contract-of-Rekodic-Reserves

سپریم کورٹ نے ریکوڈک ذخائر کے نئے معاہدے کو قانونی قراردے دیا

سپریم کورٹ نے ریکوڈک سے متعلق کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ریکوڈک ذخائر پر نئے معاہدے کو قانونی قرار دے دیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے جمعہ 9 دسمبر کو 13 صفحات پر مشتمل مختصر رائے سنا دی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ ریکوڈیک پر صدارتی ریفرنس میں دو سوالات پوچھے گئے جبکہ معدنی وسائل کی ترقی کے لیے سندھ اور خیبر پختونخوا حکومت قانون بنا چکی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ قانون میں تبدیلی سندھ اور خیبر پختونخوا کا حق ہے اور آئین خلاف قانون قومی اثاثوں کے معاہدے کی اجازت نہیں دیتا تاہم صوبے معدنیات سے متعلق قوانین میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔ نئے ریکوڈک معاہدے میں کوئی غیر قانونی بات نہیں اور ریکوڈک معاہدہ ماحولیاتی حوالے سے بھی درست ہے۔ بیرک کمپنی نے یقین دلایا ہے کہ تنخواہوں کے قانون پر مکمل عمل ہو گا اور مزدوروں کے حقوق کا مکمل خیال رکھا جائے گا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ریکوڈک منصوبے سے سوشل منصوبوں پر سرمایہ کاری کی جائے گی اور وکیل نے یقین دہانی کرائی کہ سکل ڈویلپمنٹ کے لیے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ ریکوڈک معاہدے کے مطابق زیادہ تر مزدور پاکستان کے ہوں گے اور ریکوڈک معاہدہ فرد واحد کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری کے لیے قانون بنائے جائیں۔ ریکوڈک معاہدہ سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے کے خلاف نہیں اور بلوچستان اسمبلی کو بھی معاہدے سے متعلق بریفنگ دی گئی جبکہ بین الاقوامی ماہرین نے عدالت کی معاونت کی۔ ریکوڈک ایران کے ساتھ متصل بلوچستان کے علاقے چاغی میں واقع معدنیاتی ذخائر کا علاقہ ہے جہاں زیر زمین سونے اور تانبے سمیت دیگر اہم اور قیمتی معدنیات دریافت کی گئی تھیں۔ ان ذخائر کو زمین سے نکالنے کے لئے پہلا معاہدہ سپریم کورٹ نے 2013 میں ختم کرنے کا فیصلہ دیا تھا ۔ جس کے بعد متاثرہ کمپنی عالمی عدالت میں 2017 میں پاکستان کے خلاف کیس جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ ریکوڈک کے نئے معاہدے کے تحت پاکستان اور بیرک کمپنی اس ذخائر کے آدھے آدھے مالک ہونگے جبکہ ان ذخائر سے پہلی پیداوار 2027 تک متوقع ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں