What challenges will Pakistan's new army chief face

پاکستان کے نئے آرمی چیف کو کن چیلنجز کا سامنا ہوگا؟

(ویب ڈیسک) پاکستان میں منگل کے روز فوج کے نئے آرمیچیف نے ایک ایسے وقت میں بری فوج کے سپہ سالار کا طاقتور عہدہ سنبھالا ہے جب ملک میں اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے، نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے، اقتصادی حالات ابتر ہیں ، دہشت گردی کے خطرات پھر سے سر اٹھاتے نظر آ رہے ہیں اور آرمی کے امیج کو بہتر بنانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔منگل کے روز راولپنڈی میں ہونے والی ایک پروقار تقریب میں جنرل سید عاصم منیر نے پاک فوج کے سترہویں آرمی چیف کے طور پر فوج کی کمان سنبھالی۔ یاد رہے ان سے پہلے جنرل قمر باجوہ چھ سال تک آرمی چیف رہنے کے بعد اس عہدے سے ریٹائر ہو گئے ہیں۔

پاکستان میں کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ فوج کو حقیقی معنوں میں سیاسی معاملات سے دور رکھنا اور پاکستان کو درپیش دفاعی خطرات کی طرف توجہ مرکوز کرنا نئے آرمی چیف کے لیے بڑے چیلنجز ہوں گے۔پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے (ویب ڈیسک)  سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نئے آرمی چیف کو نہ صرف اندرونی سطح پربلکہ بیرونی طور پر بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ ان کے مطابق افغانستان اور بھارت  کے ساتھ  بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ساتھ ساتھ ملک میں ہونے والیدہشت گردانہ کارروائیاں ان کے لیے ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئیں گی۔ اسی طرح پاکستان میں آرمی کے امیج کی بحالی بھی ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا جبکہ ملکی معیشت میں بہتری لانے اور سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے بھی ان کا ایک  ”ان ڈائریکٹ‘‘ رول ہوگا۔ اگر ملکی معیشت بہتر نہ ہو سکی تو اس کے اثرات ملک کے دفاعی بجٹ پر بھی رونما ہوں گے۔ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ ہر سیاسی ایشو پر آئی ایس پی آر کا ردعمل دینا ضروری نہیں۔  آئی ایس پی آر کا فوج کی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کے بارے میں بات کرنا مناسب ہو گا۔ ”دنیا بھر میں فارن پالیسی، انٹرنل سکیورٹی اور بعض دیگرمتعلقہ امور پر فوج سے مشاورت کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی ہرج نہیں۔‘‘  ان کی رائے میں پاکستان میں حکومت اور پی ٹی آئی میں جو محاذ آرائی جاری ہے اور ایف آئی اے اور الیکشن کمیشن سمیت کئی وفاقی  حکومتی ادارے جس طرح عمران خان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اس کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ” افراد کی پکڑ دھکڑ اور انہیں ہراساں کرنا کبھی بھی ریاست کے حق میں نہیں جاتا بلکہ اس سے امیج مزید خراب ہوتا ہے۔ ‘‘

فوج کی سیاست سے لا تعلقی، کیا آسان ہے؟

پاکستان کے ایک قومی روزنامے میں کالم لکھنے والے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نئے آرمی چیف کی طرف سے فوج کی کمان سنبھالنے سے ایک دن پہلے تحریک طالبان نے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کرکے پاکستان کے اندر کارروائیاں کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کو روکنا اور انٹرنل سکیورٹی کو یقینی بنانا بھی نئے آرمی چیف کے لیے ایک چیلنج ہوگا۔ ”اسی طرح چین اور پاکستان کے تعلقات کی بحالی میں فوج کی طرف سے چینی کارکنوں اور منصوبوں کی سکیورٹی اور بلوچستان کے حالات بھی نئے آرمی چیف کے چیلنجز میں شامل ہوں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں