وفاق المدارس العربیہ پاکستان (ملتان)

وفاق المدارس العربیہ پاکستان (ملتان)
تعارف، طرزِ تعلّم اور نصاب

وفاق المدارس کے نصاب میں دیگر مذاہب و مسالک کے پیروکاروں کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ وفاق المدارس کے تحت 40 ہزار سے زائد مدارس کے 22لاکھ سے زائد طلبا و طالبات کو 10 برس میں ترجمہ، تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت، صرف، نحو، ادب اور منطق کے علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ نصاب میں ایک درجن کے لگ بھگ کتب حنفی علماء کے بجائے دیگر مذاہب و مسالک کے پیروکاروں کی تصانیف ہیں۔ پڑھائی جانے والی ان کتب میں معتزلی، اشعری اور عیسائی مستشرقین سمیت دیگر مصنفین کی تصانیف شامل ہیں۔ مدارس میں عیسائی مؤلف لوئس معلوف کی شہرہ آفاق کتاب ’’المنجد‘‘ سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔
ملک میں مدارس دینیہ کے سب سے بڑے امتحانی بورڈ وفاق المدارس العربیہ پاکستان (ملتان) میں بنات (طالبات) کے لئے 6 سالہ تعلیمی نصاب، طلبا کے لئے عالم کا 8 سالہ جبکہ مفتی کے لئے 10 سالہ نصاب ترتیب دیا گیا ہے۔ وفاق المدارس کے ملک بھر میں چھوٹے بڑے 17 ہزار 952 مدارس و مکاتب ہیں، جن میں اس وقت 22 لاکھ 2 ہزار 535 طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ حفظ کے بغیر میٹرک بغیر میٹرک کے مدرسہ میں عالم بننے کا سفر شروع کرنے والے طلبا کو متوسطہ سال اول و دوئم، ثانویہ عامہ کے تحت اولیٰ اور ثانیہ، ثانویہ خاصہ کے تحت ثالثہ اور رابعہ، عالیہ کے تحت خامسہ اور سادسہ، عالمیہ کے تحت سابعہ اور دورہ حدیث شریف تک تعلیم دی جاتی ہے۔
ان درجات کے تحت طلبہ کو ترجمہ، تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت، صرف و نحو، ادب و منطق کی مختلف کتب پڑھائی جاتی ہیں۔ ان میں ثانویہ عامہ میں 30 ویں سپارے کا ترجمہ و تفسیر، جمال القرآن، فوائد مکیہ، زادالطالبین، القراۃالرشید، معلم الانشا، الطریقہ العصریہ، ارشادالصرف، قدوری کامل، شرح مائۃ عامل، علم الصیغہ فارسی، ہدایہ النحو، تسہیل الادب، صفوۃالمصادر، تیسرالمنطق، مرقاۃ، المنہاج فی القواعد و الاعراب، النحو الیسیر، ریاض الصالحین، شرح وقایہ، کنزالدقائق، نورالانوار، آسان اصول الفقہ، اصول الشاشی، کافیہ کامل، شرح جامی، نفحۃ العرب، تعلیم المتعلم، مقامات حریری، شرح تہذیب، قطبی، دروس البلاغہ، الفوز الکبیر و جلالین، ہدایہ جلد اول، مسند امام اعظم، سراجی، خیرالاصول، ہدایہ ثانی، حسامی، تاریخ اسلام، البلاغہ کی کتاب مختصر المعانی، اصول فقہ کی کتاب توضیح التکویخ، فلسفہ و عقائد آثار سنن، الانبتاہات المفیدہ اردو، عقیدہ الطحاویہ شرح عقائد، فہم الفلکیات، دیوان متنبی، سبع المعلقات، دیوان الحماسہ، سنان مع شمائل، التبیان فی علوم القرآن، آئینہ قادیانیت، بیضاوی شریف، صحیح مسلم، جامع الترمذی، مشکوٰۃ المصابیح، سنن ابوداؤد، طحاوی شریف، موطا امام مالک، موطا امام محمد اور صحیح بخاری شریف شامل ہیں۔
یوں مدارس کے نصاب میں صرف و نحو، بلاغت و بیان، تاریخ، سیرت اور فارسی زبان سمیت ایک درجن سے زائد علوم و فنون کی تقریباً پچاس قدیم و جدید کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ میں حنفی دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے مدارس کے نصاب میں نصف کے قریب کتابیں غیر حنفی علماء کی ہیں، جبکہ مدارس میں مجموعی طور پر 16 مختلف علوم و فنون پڑھائے جاتے ہیں۔ مختلف مدارس کے نصاب میں پڑھائی جانے والی کتابوں اور اس کے مصنفین کے حوالے سے معلومات کے مطابق منطق، ادب، فلسفہ اور تفسیر کی کتب دیگر مسالک و مصنفین کی پڑھائی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے مدارس پر انتہا پسندی اور تعصب کا الزام ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔
قرآن مجید تمام اسلامی علوم کے لئے اصل الاصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے قرآن کی تفسیر لکھنے اور بیان کرنے کا کام نہایت ہی حساس اور نازک سمجھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے علمائے کرام نے عجمی علما و مفسرین کے لئے قرآن کی تفسیر بیان اور لکھنے کے لئے 15 علوم و فنون کی تعلیم لازمی قرار دی ہے۔ ان کے بغیر کوئی بھی عجمی عالم قرآن کی صحیح تفسیر بیان نہیں کر سکتا ہے۔ مدارس میں قرآن کی تفسیر کے لئے سلف صالحین کی تفسیروں کے اتباع کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود دوسرے مکاتب فکر کے اکابر کی تفسیروں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ اس کی واضح مثال ’’تفسیرکشاف‘‘ کی ہے، جو ،مشہور معتزلی مفسر علامہ زمخشری کی مرتب کردہ ہے۔ اس سے نہ صرف تفسیروں کے درس میں استفادہ کیا جاتا ہے، بلکہ قرآن کے اعجاز اور فصاحت و بلاغت کے بیان میں اس کی رائے کو بطور سند پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ معتزلہ کے بہت سے عقائد اہل سنت کے کئی اصولی عقائد سے متصادم ہیں۔ پھر علامہ زمخشری نے اس تفسیر میں اہل سنت کے خلاف کوئی مواقع پر سخت مؤقف بھی اختیار کیا ہے۔ ان سب عوامل کے باوجود یہ تفسیر مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ مدارس میں کسی بھی علم کو پڑھانے سے پہلے اس علم کے اصول پڑھائے جاتے ہیں۔ تفسیر کو پڑھانے سے پہلے اصول التفسیر پڑھائے جاتے ہیں، جن میں حنفی مسلک سے وابستہ مدارس کے نصاب میں شامل تفسیر کی سب سے اہم کتاب ’’جلالین‘‘ ہے، جلالین کے دونوں مؤلفین شافعی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔
واضح رہے کہ جمہور علماء کے نزدیک مستشرقین سے مراد وہ غیر مسلم دانشور ہیں، جو مسلمانوں کے علوم حاصل کر کے اس کے بعد اسلام پر اعتراضات کرتے ہیں، جس میں وہ مسلم حکمرانوں سے صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد اس کا بدلہ لینا چاہتے ہیں، اس کے لئے انہوں نے تفسیر، حدیث، سیرت اور اسلامی تاریخ کو ہدف بنانا ہوتا ہے۔ یہ مسیحیت کی ترویج اور اسلام کی تضعیف کرتے ہیں ماتریدی سے مراد بدعتی اور اہل کلام سے تعلق رکھنے والا فرقہ ہے، جو ابومنصورماتریدی کی طرف منسوب ہے۔ انہوں نے اسلامی عقائد اور دینی حقائق ثابت کرنے کے لئے ابتدائی طور پر معتزلی کے مقابلے میں عقلی اور کلامی دلائل پر زیادہ انحصار کیا۔ ماتریدیہ متعدد مراحل سے گزرے ہیں اور انہیں اس نام سے اس فرقے کے مؤسس کی وفات کے بعد ہی پہچانا گیا۔ اشعری فرقہ ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ کی جانب منسوب ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے مطابق ابوالحسن اشعری پر تین مرحلے یا ادوار گزرے ہیں، جن میں اس کے خیالات میں بھی اختلاف پیدا ہوتا رہا ہے۔ مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ معتزلی ہوا، پھر کلابی یعنی ابن کلاب کے پیروکاروں میں شامل ہوا اور پھر آخر میں اہل سنت کی موافقت کر لی۔ اور معتزلہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ 8سو سال پرانا فرقہ ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ گناہ صغیرہ کرنے والا ہر شخص ہمیشہ کے لئے جہنم میں جائے گا اور گناہ کبیرہ کرنے والا کافر ہو جاتا ہے۔ یہ فرقہ اہل سنت سے خارج فرقہ ہے۔
مدارس میں بلا تفریق مسلک احادیث کی تمام مشہور کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، جن میں سرفہرست بخاری شریف ہے۔ امام بخاریؒ سے بعض مسائل میں اختلاف کے باوجود انہیں امیرالمؤمنین فی الحدیث کہا جاتا ہے۔ ان کی کتاب کو قرآن کے بعد سب سے عظیم اور مستند کتاب سمجھا جاتا ہے۔ طحاوی شریف کے علاوہ نصاب میں شامل احادیث کی تمام کتابیں غیر حنفی ائمہ کی ہیں۔ ان کتابوں کو حنفی درس نظامی میں اتنی اہمیت حاصل ہے کہ ان کو پڑھے بغیر کسی طالب علم کو فراغت کی سند نہیں مل سکتی۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ احادیث پڑھانے والے کئی اساتذہ اور طلبہ احادیث تلاش کرنے کے لئے عیسائی مستشرقین بروکلین کی کتاب ’’المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ علاوہ ازیں اس زمانے میں بیروت سے شائع ہونے والی یہودی مستشرقین کی کئی کتابیں مدارس کی لائبریریوں میں تحقیق و استفادے کے لئے رکھی جاتی ہیں۔
واضح رہے کہ علم فقہ میں ہر مسلک و مکتب فکر سے وابستہ ادارے میں وہی فقہی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، جو اسی مسلک کے علما نے لکھی ہوں۔ مدارس میں علم فقہ کی سب سے اونچی کتاب ’’ہدایہ‘‘ ہے، جس میں اختلافی مسائل میں ائمہ احناف کے نقطہ نظر کی ترجمانی کی گئی ہے۔ لیکن اسی ہدایہ کے حاشیہ پر مشہور شافعی محدث اور فقیہ علامہ ابن حجر عسقلانی کی کتاب ’’الدرایۃ‘‘ بھی لگائی گئی ہے، جس میں انہوں نے کئی مقامات پر احناف کے دلائل کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ مدارس میں فقہ کی کوئی بھی کتاب شروع کرنے سے قبل اصول فقہ لازمی پڑھایا جاتا ہے۔ جبکہ مدارس میں اصول فقہ کے طور پر علامہ تفتازانی کی مشہور کتاب ’’التوضیح والتلویح‘‘ انتہائی اہمیت کی حامل ہے، جس کو تقریباً احناف کے تمام مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔ علامہ تفتازانی کے بارے میں علمائے کرام نے لکھا ہے کہ وہ حنفی مسلک کی کئی کتابوں کی شرح لکھنے کے باوجود شافی المسلک تھے۔
مدارس میں عقائد بھی پڑھایا جاتا ہے۔ اسلامی عقائد کی تعلیم اور عقائد میں اختلافی مسائل پر بحث مباحثہ کے علم کو ’’علم کلام‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ علم درس نظامی کے مشکل ترین علوم میں شمار ہوتا ہے۔ علم الکلام کی جملہ کلامی ابحاث کے حوالے علمائے اہل سنت کے دو مشہور مکاتب فکر ’’ماتریدی‘‘ اور’’اشعری‘‘ ہیں۔ اکثر ائمہ احناف ماتریدی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس اہم اور حساس فن میں پڑھائی جانے والی واحد کتاب ’’شرح عقائد‘‘ اشعری مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے محقق علامہ سعد الدین تفتازانی کی ہے۔ عقائد کے معاملے میں خصوصیت کے ساتھ اس قدر وسعت ظرفی کا مظاہرہ شاید ہی کسی مکتب فکر نے کیا ہو۔
مدارس عربیہ میں کتب بینی کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ مدرسہ میں طلبہ 24 گھنٹوں میں سے نصف وقت مختلف کتابوں سے کسب فیض گزارتے ہیں۔ مدارس میں لغت اور علم لغت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ علم لغت میں مدارس میں تاج العروس، مصباح اللغات اور دیگر شاہکار کتابوں کے ہوتے ہوئے عیسائی مؤلف لوئس معلوف کی شہرہ آفاق کتاب ’’المجد‘‘ سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب تقریباً ہر بڑے عالم اور مدرسے کے کتب خانے کا لازمی جزو ہے۔ واضح رہے کہ مؤلف نے لغات کے بیان میں عیسائیت کے پرچار کی کوشش بھی کی ہے۔ اس کے علاوہ متعدد اسلامی اصطلاحات کو بھی بگاڑ کر بیان کیا ہے۔
مدارس کے طلبا و طالبات کو عربی ادب بھی پڑھایا جاتاہے، جس میں شروع میں طریقہ العصریہ، طریقۃ الجریدہ، معلم الانشا، نفحۃالعرب، مقامات، دیوان حماسہ اور متنبی شامل ہیں۔ علم ادب میں اپنے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کرنے والے ادیب و شاعر متنبی کی کتاب پڑھائی جاتی ہے، جس کی دینی و اخلاقی حالت تذکرہ نویسوں کے بقول نہایت ہی قابل رحم تھی۔ متنبی کو عربی ادب میں اعلیٰ مقام کی وجہ سے عربی ادب کے بطور مدارس میں پڑھایا جاتا ہے، متنبی کو نصاب میں شامل کرنے کے حوالے سے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اس کے عقائد اور خیالات سے قطع نظر طلبہ کو اس کے ادب سے مستفید ہونے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جاہلیت کے زمانے کی شاہکار عربی نظموں کا مجموعہ ’’السبع المعلقات‘‘ بھی بہت سے مدارس میں داخل نصاب ہے جس کے مندرجات میں جاہلیت کے عقائد اور نظریات بھی ہیں۔ علماء نے ان مندرجات سے صرف نظر کر کے ان کی ادبی حیثیت کا اعتراف کیا ہے اور اسے اپنے نصاب میں ممتاز مقام عطا کیا ہے۔
علم عروض و قوافی وہ علم ہے، جس کے ذریعے ہر زبان میں شعر و شاعری کے قواعد اور قوانین بیان کیے جاتے ہیں۔ چونکہ عربی زبان میں فن عروض و قوافی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، اس لیے مدارس کے نصاب میں اس فن کو بھی جگہ جاتی ہے۔ اس فن میں عالم اسلام کے کئی ائمہ فن نے کئی چھوٹی بڑی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ تاہم مدارس دینیہ کی وسعت ظرفی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس فن سے متعلق نصاب میں شامل واحد کتاب کسی عربی عالم یا اسلامی ادیب کی نہیں، بلکہ امریکا کے شہر نیو یارک سے تعلق رکھنے والے برطانوی نژاد عیسائی مصنف ڈاکٹر نیلسس فنڈیک کی ہے، جو ’’محیط الدائرہ‘‘ کے نام سے وفاق المدارس کے نصابی نقشے میں موجود ہے اور اہتمام کے ساتھ پڑھائی جاتی ہے۔ اس کے بعد مدارس عربیہ پر لگایا جانے والا انتہاپسندانہ رجحانات کا الزام ختم ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ مدارس پر انتہا پسندی کی حوالے سے سب سے زیادہ الزامات شیعہ سنی اختلافات کے حوالے سے لگائے جاتے ہیں۔ جبکہ اس پروپیگنڈے کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مدارس کے نصاب میں ابتدائی درجات کے طلبا و طالبات علم منطق کی اہم ترین کتابوں میں سے ایک ’’شرح تہذہب‘‘ بھی پڑھائی جاتی ہے، جو کسی سنی عالم کی نہیں بلکہ ایران سے تعلق رکھنے والے شیعہ مصنف علامہ عبداللہ بن الحسین اصفہانی کی تحریر کردہ ہے۔ آج تک اس کتاب کے شامل نصاب ہونے پر کسی مدرسے یا کسی عالم نے کوئی احتجاج نہیں کیا ہے، بلکہ اس سے خوشدلی کے ساتھ استفادہ کیا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں