journey-of-dhul-qarnain-khabarjahan-2

قصۂ ذوالقرنین

علامہ دمیریؒ نے حیات الحیوان میں لکھا ہے: حضرت عقبہؓ بن عامر فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں بطور خادم حاضر تھا۔ اہل کتاب کے کچھ لوگ مصاحف یا کچھ اور کتابیں لیے ہوئے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہمارے لیے حضوراکرمﷺ سے حاضری کی اجازت لے آؤ۔ چنانچہ میں نے حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کا پیغام پہنچا دیا اور ان کا حلیہ بھی بیان کر دیا۔Journey of Dhul-Qarnain
آپﷺ نے فرمایا کہ ان کا مجھ سے کیا واسطہ، وہ مجھ سے ایسی باتیں پوچھتے ہیں، جو مجھ کو معلوم نہیں۔ آخر میں بھی خدا کا بندہ ہوں، صرف وہی بات جانتا ہوں جس کا علم میرا رب مجھے عطا کرتا ہے، پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اچھا مجھے وضو کرا دو۔ چنانچہ آپﷺ کو وضو کرا دیا گیا، پھر آپﷺ گھر کے مصلے میں تشریف لے گئے اور دو رکعات نماز ادا فرمائی، جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے دیکھا کہ آپﷺ کے چہرے پر بشاشت کے آثار نمایاں ہیں، پھر آپﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ ان لوگوں کو میرے پاس بلا لاؤ اور میرے صحابہ میں سے جو اس وقت ،موجود ہوں ان کو بھی بلا لاؤ۔
چنانچہ میں سب کوخدمت اقدس میں بلا لایا، جب اہل کتاب حضور اکرمﷺ کی خدمت میں پیش کیے گئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ، جو کچھ تم مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو، اگر تم چاہو تو میں تمہارے سوال کیے بغیر تم کو بتلا دوں اور اگر تم چاہو تو خود سوال کر لو۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ آپ خود ابتدا فرما دیں۔
آپﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرنا چاہتے ہو، لہٰذا میں تم کو بتلاتا ہوں کہ جو کچھ تمہاری کتابوں میں ان کے بارے میں لکھا ہے، وہ یہ ہے کہ ذوالقرنین ایک رومی لڑکا تھا۔ حق تعالیٰ نے اس کو سلطنت عطا فرمائی، پھر وہ بلاد مصر کے ساحل پر پہنچا اور وہاں ایک شہر آباد کیا، جس کا نام اسکندریہ رکھا۔ جب وہ اس کام سے فارغ ہوا تو اس کے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس کو روبقبلہ کر کے آسمان کی طرف لے کر اُڑ گیا، پھر اس سے کہا کہ نیچے کی طرف نگاہ کر اور بتا کہ تجھ کو کیا نظر آ رہا ہے؟ چنانچہ اس نے زمین کی طرف دیکھ کر کہا کہ مجھ کو میرا شہر اور ساتھ میں دوسرے شہر نظر آ رہے ہیں، پھر فرشتہ اس کو اور اوپر لے کر اُڑا اور پھر وہی سوال دہرایا۔ ذوالقرنین نے کہا کہ مجھ کو میرا شہر اور ساتھ میں دوسرے شہر نظر آ رہے ہیں، پھر فرشتہ اس کو اور اوپر لے کر اُڑا اور پھر وہی سوال دہرایا۔ ذوالقرنین نے کہا کہ مجھ کو میراشہر اور دیگر شہر ملے جلے نظر آ رہے ہیں۔ میں اپنے شہر کو شناخت نہیں کر سکتا، پھر فرشتہ اس کو اور اوپر لے گیا اور کہا کہ اب دیکھ کیا نظر آ رہا ہے؟ اس نے جواب دیا اب تو مجھ کو تنہا اپنا شہر نظر آ رہا ہے۔ فرشتے نے کہا کہ یہ سب زمین ہے اور جو کچھ اس کے چاروں طرف ہے وہ سمندر ہے۔حق تعالیٰ نے تجھ کو اس کا سلطان مقرر کیا ہے۔
اس کے بعد ذوالقرنین نے دنیا کا سفر اختیار کیا اور چلتے چلتے وہ مغرب الشمس (آفتاب غروب ہونے کی جگہ) پر پہنچ گیا اور پھر وہاں سے چل کر مطلع الشمس یعنی مشرق کی طرف جا پہنچا۔ وہاں سے چل کر ’’سدین‘‘ یعنی دو دیواروں پر پہنچا، جو اتنے نرم تھے کہ جو چیز ان سے مس کرتی وہ ان سے چپک جاتی تھی۔ اس کے بعد اس نے دیوار تعمیر کی اور یاجوج ماجوج کے پاس پہنچا اور ان کو دیگر مخلوق سے جدا کیا۔ بعدازاں اس کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے چہرے کتوں کے مشابہ تھے اور وہ یاجوج ماجوج سے قتال کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس نے ان کو بھی جدا جدا کر دیا۔ پھر ایک ایسی قوم کے پاس پہنچا جو ایک دوسرے کو کھا جاتے تھے، وہاں ایک صخرہ عظیم بھی دیکھا۔ آخر میں وہ بحرمحیط کے ایک ملک میں گیا۔ یہ سن کو وہ اہل کتاب بولے کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ ذوالقرنین کے متعلق جو کچھ آپ نے ارشاد فرمایا بالکل وہی ہماری کتابوں میں مذکور ہے۔
علامہ دمیریؒ فرماتے ہیں کہ روایت میں آتا ہے کہ جب ذوالقرنین اسکندریہ کی تعمیر سے فراغت پا چکے اور اس کو خوب مستحکم بنا دیا تو آپ نے وہاں سے کوچ فرمایا اور چلتے چلتے آپ کا گزر ایک ایسی صالح قوم پر ہوا، جو راہ حق پر گامزن تھی اور ان کے جملہ امور حق پر مبنی تھے اور ان میں یہ اوصاف حسنہ بدرجہ اکمل موجود تھے۔ روزمرہ کے امور میں عدل اور ہر چیز کی مساوی تقسیم، انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا، آپس میں صلہ رحمی، حال و قال ایک، ان کی قبریں ان کے دروازوں کے سامنے، ان کے دروازے غیر مقفل، نہ ان کا کوئی امیر و قاضی، نہ آپس میں امتیازی سلوک، نہ کسی قسم کا جھگڑا، نہ گالی گلوچ اور نہ قہقہہ بازی، نہ رنج و غم، آفات سماویہ سے محفوظ، عمریں دراز، نہ ان میں کوئی مسکین اور نہ کوئی فقیر۔
ذوالقرنین کو ان کے حالات دیکھ کر تعجب ہوا اور کہنے لگے کہ تم لوگ مجھ کو اپنے حالات سے مطلع کرو۔ کیوں کہ میں تمام دنیا میں گھوما ہوں اور بے شمار بری اور بحری اسفار کیے ہیں، مگر تم جیسی صالح اور کوئی قوم نظر نہیں آئی۔ ان کے نمائندہ نے کہا: آپ جو چاہیں سوال کریں، میں اس کا جواب دیتا جاؤں گا۔
ذوالقرنین: تمہاری قبریں تمہارے گھروں کے دروازے کے سامنے کیوں ہیں؟
نمائندہ: ایسا ہم نے عمداً اس لیے کیا ہے، تا کہ ہم موت کو نہ بھول جائیں، بلکہ اس کی یاد ہمارے دلوں میں باقی رہے۔
ذوالقرنین: تمہارے دروازوں پر قفل کیوں نہیں؟
نمائندہ: ہم میں سے کوئی مشتبہ نہیں، بلکہ سب امانت دار ہیں۔
ذوالقرنین: تمہارے یہاں امراء کیوں نہیں ہیں؟
نمائندہ: ہمیں امراء کی حاجت نہیں ہے۔
ذوالقرنین: تمہارے اوپر حکام کیوں نہیں ہیں؟
نمائندہ: کیوں کہ ہم آپس میں جھگڑا نہیں کرتے، جو حکام کی ضرورت پیش آئے۔
ذوالقرنین: تم میں اغنیاء یعنی مال دار کیوں نہیں ہیں؟
نمائندہ: کیوں کہ ہمارے یہاں مال کی کثرت نہیں ہے۔
ذوالقرنین: تمہارے یہاں بادشاہ کیوں نہیں ہیں؟
نمائندہ: ہمارے یہاں دنیوی سلطنت کی کسی کو رغبت ہی نہیں۔
ذوالقرنین: تمہارے اندر اشراف کیوں نہیں ہیں؟
نمائندہ: کیوں کہ ہمارے اندر تفاخر کا مادہ ہی نہیں ہے۔
ذوالقرنین: تمہارے درمیان باہم اختلاف کیوں نہیں؟
نمائندہ: کیوں کہ ہم میں صلح کا مادہ بہت زیادہ ہے۔
ذوالقرنین: تمہارے یہاں آپس میں جھگڑا کیوں نہیں؟
نمائندہ: ہمارے یہاں حلم اور بردباری کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہے۔
ذوالقرنین: تم سب کی بات ایک ہے اور طریقہ راست ہے؟
نمائندہ: یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم آپس میں نہ جھوٹ بولتے ہیں نہ دھوکا دیتے ہیں اور نہ غیبت کرتے ہیں۔
ذوالقرنین: تمہارے سب کے دل یکساں اور تمہارا ظاہر و باطن بھی یکساں ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
نمائندہ: اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب کی نیتیں صاف ہیں، ان سے حسد اور دغا نکل گئے ہیں۔
ذوالقرنین: تم میں کوئی مسکین و فقیر کیوں نہیں ہے؟
نمائندہ: کیوں کہ جو کچھ ہمارے یہاں پیدا ہوتا ہے، ہم سب اس کو برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔
ذوالقرنین: تمہارے یہاں کوئی درشت مزاج اور تندخو کیوں نہیں ہے؟
نمائندہ: کیوں کہ ہم سب خاکسار اور متواضع ہیں۔
ذوالقرنین: تم لوگوں کی عمریں دراز کیوں ہیں؟
نمائندہ: کیوں کہ ہم سب ایک دوسرے کے حق کو ادا کرتے ہیں اور حق کے ساتھ آپس میں انصاف کرتے ہیں۔
ذوالقرنین: تم باہم ہنسی مذاق کیوں نہیں کرتے؟
نمائندہ: تا کہ ہم استغفار سے گافل نہ ہوں۔
ذوالقرنین: تم غمگین کیوں نہیں ہوتے؟
نمائندہ: ہم بچپن سے بلا اور مصیبت جھیلنے کے عادی ہو گئے ہیں، لہٰذا ہم کو ہر چیز محبوب و مرغوب ہو گئی ہے۔
ذوالقرنین: تم لوگ آفات میں کیوں نہیں مبتلا ہوتے، جیسا کہ دوسرے لوگ ہوتے ہیں؟
نمائندہ: کیوں کہ ہم خدا کے علاوہ کسی پر بھروسا نہیں کرتے اور نہ ہم نجوم وغیرہ کے معتقد ہیں۔
ذوالقرنین: اپنے آباؤ اجداد کا حال بیان کرو کہ وہ کیسے تھے؟
نمائندہ: ہمارے آباؤ اجداد بہت اچھے لوگ تھے، وہ اپنے مساکین پر رحم کرتے اور جو ان میں فقیر ہوتے ان سے بھائی چارہ کرتے، جو ان پر ظلم کرتا اس کو معاف کر دیتے اور جو ان کے ساتھ برائی کرتا، وہ ان کے ساتھ بھلائی کرتے تھے، جو ان کے ساتھ جہل کا معاملہ کرتا ، وہ ان کے ساتھ بردباری کا معاملہ کرتے۔ آپس میں صلہ رحمی کرتے۔ نماز کے اوقات کی حفاظت کرتے۔ اپنے وعدے کو پورا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے حق تعالیٰ نے ان کے ہر کام درست کر رکھے تھے اور جب تک وہ زندہ رہے، ان کو حق تعالیٰ نے آفات سے محفوظ رکھا اور حق تعالیٰ نے اب ان کی اولاد یعنی ہم کو بھی انہی کے نقش قدم پر ثابت رکھا۔
یہ سب باتیں سن کر ذوالقرنین نے کہا کہ اگر میں کسی جگہ قیام کرتا تو تمہارے پاس کرتا، لیکن حق تعالیٰ کی طرف سے مجھے کہیں قیام کی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے معذور ہوں۔ Journey of Dhul-Qarnain

اپنا تبصرہ لکھیں