مولائے اسلامؒ راجہ داہر کے دربار میں

محمد بن قاسمؒ ۹۳ھ میں سندھ آئے اور ان سے ملاقات کرتے ہی بعض لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہو گئے، ان میں سے ایک صاحب مولائے اسلامؒ تھے، جنہیں تاریخ میں مولائے اسلامی، مولائے دیبلی اور مولائے اسلام دیبلی کے مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ محمد بن قاسمؒ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے، نہایت ذہین اور سمجھ دار تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے سے پڑھے لکھے تھے اور راجہ داہر کے سرکاری حلقوں میں معروف بھی تھے۔ انہوں نے اسلامی تعلیم بہت جلد حاصل کر لی، جس کی وجہ سے محمد بن قاسم کے نزدیک بھی قابل اعتماد سمجھے جانے لگے۔ عربی زبان پر بھی انہوں نے بہت تھوڑے عرصے میں عبور حاصل کر لیا تھا، چچ نامہ کی روایت کے مطابق جب محمد بن قاسم نے وادی سندھ میں قدم رکھا اور حالات کا جائزہ لیا تو اپنے ایک شامی مشیر کو قاصد کی حیثیت سے راجہ داہر کے پاس بھیجا اور ترجمان کے طور پر مولائے اسلام کو ان کے ساتھ روانہ کیا۔ یہ راجہ داہر کے پاس پہنچے تو مروجہ درباری آداب بجا لائے بغیر اور راجہ سر جھکا کر سلام کیے بغیر بیٹھ گئے۔ راجہ داہر مولائے اسلام کو جانتا تھا، لیکن اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ مسلمان ہو چکے ہیں، چناں چہ اس نے سلام و کورنش کے تقاضے پورے نہ کرنے کی وضاحت طلب کرتے ہوئے پوچھا۔
تم نے درباری قواعد و آداب کیوں پورے نہیں کیے؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں کسی نے اس سے زبردستی روک دیا ہے۔ مولائے اسلام نے جواب دیا کہ میں اس وقت تمہارے مذہب میں داخل تھا، لہٰذا درباری نوعیت کے آدابِ نیاز و بندگی پر عمل کرنا مجھ پر واجب تھا، لیکن اب میں اسلام کی عزت حال کر چکا ہوں اور میرا تعلق بادشاہِ اسلام سےقائم ہو چکا ہے، اب کسی کافر کے آگے سر جھکانا میرے لیے ضروری نہیں۔
راجہ داہر کو اس جواب کی توقع نہ تھی، وہ غضب ناک ہو کر بولا۔ اگر تو قاصد نہ ہوتا تو میں تجھے اتنی سزا دیتا کہ لوگ تجھے موت کے گھاٹ اتار دیتے۔ مولائے اسلام نے اطمینان سے جواب دیا۔ اگر تو مجھے قتل بھی کرا دے تو اس سے عربوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ میرے خون کا انتقام لینے والے موجود ہیں، جن کا ہاتھ تیرے دامن تک ہر حال میں پہنچ کر رہے گا۔

Maula-e-Islam in front of Raja Dahir
(تراشے از مفتی تقی عثمانی)

اپنا تبصرہ لکھیں