Bangali vs Bangladeshi

میں بنگالی ہوں بنگلہ دیشی نہیں

ذیشان احمد

۱۶ دسمبر ۲۰۱۹ء

آج سولہ دسمبر ہے آج سے اڑتالیس برس قبل سقوطِ ڈھاکہ کا دلخراش سانحہ پیش آیا تھا۔ ڈھاکہ کا یہ سقوط پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب اور سولہ دسمبر ایک سیاہ ترین دن ہے۔ یہ ایک سیاسی مسئلہ تھا جس کا فوجی حل نکالنے کے نتیجے میں آدھا پاکستان گنوا دیا گیا اور دنیا کے نقشے میں ایک اور مملکت معرضِ وجود میں آئی جسے بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے۔۔۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کسی بھی محب وطن پاکستانی کے لئے یقیناً ایک غم ناک سانحہ ہے، مگر بحیثیت ایک بنگالی مجھے افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ جب کسی سے اس سانحے کے عوامل اور محرکات پر بات کی جاتی ہے تو ان کی جانب سے اس سانحے کا ذمہ دار بنگالیوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ اور ہم پاکستانی بنگالی بھی غداروں کی اس فہرست میں دکھائی دیتے ہیں جو انہوں نے از خود مرتب کی ہوتی ہے۔ قصور اُن لوگوں کا نہیں بلکہ رائے عامہ کی تربیت کرنے والے ان اداروں کا ہے جو اس سانحے کو موڑ توڑ کر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اصل حقائق کوچھپا لیتے ہیں جو چیخ چیخ کر یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ اس سانحے کے اصل ذمہ دار وہ ادارے ہیں جو طاقت کا محور سمجھے جاتے ہیں۔ مطالعہ پاکستان میں بھی اس حوالے سے بعض جگہ صراحت کے ساتھ اور کہیں کہیں دبے لفظوں میں بنگالیوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔۔۔
آج پاکستان کی اکثریت ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جو 1971ء کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے اس سانحے کو ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے اس لئے زندہ حافظے سے اس سانحے کے اصل محرکات اور حقائق مٹتے چلے جا رہے ہیں۔ لہٰذا وہ لوگ جو اس سانحے کا ذمہ دار بنگالیوں کو سمجھتے ہیں، میں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں آپ اس سانحے کے اسباب و عوامل پر غور کیجیے اور غیر جانبداری کے ساتھ اس اندوہناک وقوعہ کا جائزہ لیجیے، آپ کو محسوس ہو گا کہ سقوطِ مشرقی پاکستان ناانصافی، حقوق کی پامالی اور نسلی عصبیت کی ایک دردناک داستان ہے۔
اگر آپ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کا عمرانی جائزہ لیں تو آپ دونوں سماجوں میں مشرق و مغرب جیسا ہی فرق محسوس کریں گے۔ مشرقی پاکستانی، مغربی پاکستانیوں کی نسبت زیادہ بیدار اور حساس تھے وہی تحریکِ پاکستان کے اولین محرک بھی تھے۔ آپ آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام سے لے کر قراردادِ پاکستان اور پھر قیامِ پاکستان تک کی تاریخ کو کھنگال کر دیکھ لیجیے اگر بنگالیوں کے کردار کو اس تاریخ میں سے حذف کر دیا جائے تو پاکستان فقط اقبالؒ کے خواب تک محدود ہو کر رہ جائے گا۔۔۔
پاکستان جغرافیائی اعتبار سے ایک وحدت مملکت نہیں تھا۔ اس کے دنوں حصے ایک دوسرے سے ہزار میل کے فاصلے پر تھے ملک کے دونوں حصوں کی سماجی و ثقافتی صورتحال بھی ایک دوسرے سے حد درجہ مختلف تھی۔ دونوں طرف کی عوام کئی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف تھے، ان کے سماجی طرزِ عمل میں واضح تفاوت تھا۔ مشرقی پاکستانی اپنے معاشی و معاشرتی حقوق میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں چاہتے تھے۔ وہ ایک غیر جاگیردارانہ معاشرے میں رہتے تھے جہاں جاگیردارانہ معاشرے کی غلامانہ سوچ نہیں پائی جاتی تھی جبکہ یہاں مغربی پاکستان میں جاگیردارانہ معاشرے کے ساتھ ساتھ برطانوی دور میں ابھرنے والی افسر شاہی کا بھی خاصا عمل دخل تھا جو آج تک موجود ہے۔۔۔
ان حالات میں دونوں صوبوں کو متحد رکھنے کے لئے گہری فراست، تحمل اور سیاسی رواداری کی ضرورت تھی لہٰذا دونوں حصوں کو متحد رکھنے کے لئے یہ ضروری تھا کہ انہیں مکمل صوبائی خودمختاری دی جاتی تا کہ وہ اپنے اپنے حالات اور ضرورتوں کے مطابق اپنی اپنی حکومتیں چلاتے۔ لیکن قائدِ اعظم اور قائدِ ملت کے بعد مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی بیوروکریسی، ملٹری اور جاگیرداروں نے پاکستان کی ریاست اور سیاست پر قبضہ کر لیا اور بنگالیوں کو جو اکثریت میں تھے اقتدار، اختیار اور امورِحکومت سے نکالنا شروع کر دیا۔ 1953ء میں بنگالی وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدّین کی منتخب حکومت کو غیر آئینی طریقے سے برطرف کر کے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان نفرت کی ایک خلیج حائل کر دی اور بعد میں مشرقی پاکستان کی عددی برتری ختم کرنے کے لئے وَن یونِٹ کے قیام نے بنگالیوں کے احساسِ محرومی کو مزید گہرا کر دیا۔
جنرل ایوب خان کے دور کی بات کی جائے تو ان کے دور میں بھی مشرقی پاکستان کے ساتھ معاشی ناانصافی روا رکھی گئی جو بعد میں ملک ٹوٹنے کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ ثابت ہوئی۔ جنرل ایوب خان کا دور ملک کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ اس وقت میں جتنی ترقی ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی، ان کے دور میں ڈیم بنائے گئے، فیکٹریاں لگائی گئیں، صنعتوں کا جال بچھایا گیا۔ مگر یہ سب کچھ مغربی پاکستان کے لئے تھا مشرقی پاکستان اس ترقی سے محروم تھا۔ گویا ریاست نے اپنے دو بچوں کے لئے علیحدہ علیحدہ معیار مقرر کر رکھا تھا۔۔۔
مشرقی پاکستانیوں کا مطالبہ تھا کہ صوبوں کو اس قدر خودمختاری دی جانی چاہئے کہ وہ اپنے معاملات میں آزاد ہوں اور اپنے وسائل پر قادر ہوں جبکہ مرکزی حکومت ایک مضبوط مرکز کی حامی تھی۔ صوبائی خود مختاری پر پابندیوں نے بھی محرومی کے احساس کو جنم دیا اور آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ بے انصافی کے احساس میں مبتلا ہو گیا۔ اس احساس کو لسانی تحریک، معاشی بے انصافی، اکثریتی صوبہ ہونے کے باوجود سروسز میں کم کوٹہ، سیاسی اور قومی ڈھانچے میں شرکت کی کمی نے مزید گہرا کر کے ان کے درمیان نفرت کی ایک دیوار کھڑی کر دی اور انہیں یہ محسوس ہونے لگا کہ مغربی پاکستان خصوصاً پنجاب کے لوگ فوج کے ذریعے متحدہ پاکستان پر قابض ہیں اور ہم اکثریت میں ہونے کے باوجود اقتدار سے محروم ہیں۔
1970ء کے آزادانہ، غیر جانبدارانہ، شفاف اور منصفانہ انتخابات سے جو سیاسی منظرنامہ اُبھرا اس میں شیخ مجیب الرّحمٰن کی متحدہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں واضح اکثریت تھی۔ شیخ مجیب الرّحمٰن مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی میں 171 نشستوں میں سے 169 نشستیں جیت گئے تھے جبکہ بھٹو صاحب نے یہاں مغربی پاکستان میں 129 نشستوں میں سے 82 نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس طرح اقتدار کے سو فیصد حقدار شیخ مجیب الرّحمٰن تھے۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو نے 14 مارچ 1971ء کو نشتر پارک کراچی کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شیخ مجیب الرّحمٰن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم مشرقی پاکستان کی اکثریتی پارٹی ہو اور میں مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی ہوں لہٰذا مشرقی پاکستان میں اقتدار کا انتقال الگ ہو اور مغربی پاکستان میں الگ ہو۔ اس کے لئے بھٹو صاحب نے ’’اُدھر تم۔۔۔ اِدھر ہم‘‘ کا تاریخی جملہ کہا۔
غرض یہ کہ مشرقی پاکستان کے باشندوں کے ساتھ مغربی پاکستان کے حکمرانوں کا رویہ غیر مساوی تھا۔ انہیں اپنی آبادی اور تعلیم کے مطابق نمائندگی نہیں دی جاتی تھی، انہیں کمتر اور کمزور سمجھا جاتا تھا۔ مغربی پاکستان کے جو افسران وہاں تعینات کئے جاتے تھے ان کا رویہ وہی ہوا کرتا تھا جو برطانوی دور میں انگریز افسران کا ہندوستان باسیوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ وہ حُریت پسند بنگالی جنہوں نے 1905ء میں مغربی بنگال کے معاشی تسلط کے خلاف بغاوت کر کے ان سے علیحدگی اختیار کی تھی وہ مغربی پاکستان کی غلامی کیونکر تسلیم کر لیتے؟
لکھنے کو تو اب بھی بہت کچھ باقی ہے مگر انہیں وجوہات پر اکتفا کر کے آپ کے سامنے یہ سوال رکھتا ہوں کہ کیا اب بھی آپ کا گمان اہلِ ڈھاکہ کو خطا وار سمجھتا ہے؟
کیا اب بھی آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس تقسیم میں مغربی پاکستان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا؟
اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو یہ آپ کی رائے ہو گی اور آپ اپنی رائے پیش کرنے میں آزاد اور حق بجانب ہیں البتہ آپ سے گزارش ہے کہ کم از کم آپ ہم پاکستانی بنگالیوں کو اس تقسیم کا ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔ بنگالی اور بنگلہ دیشی ہونے میں جو واضح فرق ہے اس فرق میں تمیز کیجیے۔ ڈھاکہ کا بنگالی، بنگالی ہے اور بنگلہ دیشی بھی اور کلکتہ کا بنگالی بھی بنگالی ہے پر وہ بنگلہ دیشی نہیں ہے، وہ بھارتی ہے۔ جس طرح آپ امرتسر کے پنجابی کو بھارتی اور لاہور کے پنجابی کو پاکستانی سمجھتے ہیں، اسی طرح ہم کراچی میں بسنے والے بنگالی بھی پاکستانی بنگالی ہیں ہمیں بنگلہ دیشی مت سمجھا جائے۔ ہمارے دل بھی پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ سولہ دسمبر ہم پر بھی گِراں گزرتا ہے۔ اور سال کے یہ آخری ایام ہمارے سینوں کو بھی آپ کے سینوں کی طرح چھلنی کر کے رکھ دیتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں