امام اعظمؒ اور حضرت سفیان ثوریؒ کا اختلاف

ایک شخص نے غصے میں آ کر اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ۔ ’’خدا کی قسم جب تک تو مجھ سے نہیں بولے گی، میں تجھ سے بات نہیں کروں گا۔‘‘ عورت بھی غصے میں تھی۔ بولی ’’خدا کی قسم! جب تک تم مجھ سے نہ بولو گے، میں بھی تم سے کلام نہیں کروں گی۔‘‘
اس وقت تو دونوں نے غصے میں قسمیں کھا لیں۔ لیکن بعد میں سخت پریشان ہوئے۔ کیوں کہ جو بھی بولتا ہے، اس کی قسم ٹوٹتی ہے اور بھاری کفارہ لازم آتا ہے اور نہ بولیں تو گزر کیسے ہو؟
حضرت سفیان ثوریؒ سے مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے واقعہ معلوم کر کے فتویٰ دیا کہ اگر تم بیوی سے بولو گے تو تمہیں قسم کا کفارہ دینا پڑے گا۔ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں اور اگر وہ بولے گی تو اسے کفارہ دینا پڑے گا۔
غریب آدمی تھا۔ وہ پریشان ہو کر امام اعظم ابو حنیفہؒ کے پاس آیا اور واقعہ بتا کر مسئلہ پوچھا۔ امام اعظمؒ نے واقعہ سن کر اس شخص سے کہا ’’جاؤ اور شوق سے باتیں کروتم میں سے کسی پر کفارہ نہیں ہے۔‘‘
جب حضرت سفیان ثوریؒ کو معلوم ہوا تو سخت ناراض ہوئے اور امام اعظمؒ کے پاس جا کر کہا ’’آپ لوگوں کو غلط مسئلے بتاتے ہیں۔‘‘
امام اعظمؒ نے اس شخص کو بلوایا اور فرمایا: اپنا واقعہ دوبارہ بیان کرو۔ اس نے واقعہ بیان کیا۔
امام ابو حنیفہؒ: اس مسئلے کا جو جواب میں نے پہلے دیا تھا۔ میرا جواب اب بھی وہی ہے۔
سفیان ثوریؒ: کس دلیل سے؟
امام ابو حنیفہؒ: عورت نے شوہر کی قسم کے بعد اس سے مخاطب ہو کر اپنی قسم کھائی۔ وہ بھی تو بولنا ہی تھا۔ شوہر کی قسم یہی تو تھی کہ اگر تم مجھ سے نہیں بولو گی تو میں تجھ سے بات نہیں کروں گا۔ عورت بول دی تو اس کی قسم کہاں باقی رہی؟
حضرت سفیان ثوریؒ: (حیرت زدہ ہو کر) واقعی جو بات وقت پر آپ سوچ لیتے ہیں، وہاں ہمارا خیال بھی نہیں جاتا۔
(تاریخ کے دریچوں سے۔ از مفتی محمد رفیع عثمانی)

اپنا تبصرہ لکھیں