How painful it is to be a stateless

ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

ذیشان احمد

۰۷ ستمبر ۲۰۲۱ء

تصویر میں نظر آنے والے یہ نوجوان کراچی کی بنگالی برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو حصولِ معاش کے سلسلے میں مختلف سرحدیں عبور کرتے ہوئے یورپ جانا چاہتے تھے۔ اپنے سفر کا کافی حصہ طے کر لینے کے بعد جب یہ لوگ ترکی پہنچے تو بدقسمتی سے وہاں ایک غیر ملکی اغواکار گروہ کے ہتھے چڑھ گئے۔ یہ اغواکار ان نوجوانوں کے اہل خانہ سے رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں جلد از جلد تاوان کی رقم ادا کر دی جائے بصورت دیگر انہیں تشدد اور سخت اذیتیں دے کر قتل کر دیا جائے گا۔ بطورِ نمونہ انہوں نے اس گروپ کے ایک فرد کو قتل کر کے اس کی ویڈیو فوٹیجز جاری کی ہیں اور یہ باور کروایا ہے کہ یہ کسی بھی حد تک جانے سے دریغ نہیں کریں گے۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال آیا ہو گا کہ یہ نوجوان غیر قانونی طور پر اور اسمگلنگ کے ذریعے یورپ کی طرف کیوں جا رہے تھے؟ انہیں ویزا حاصل کر کے قانونی طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے تھا۔ چند پیسے بچانے کی خاطر اپنی زندگی داؤ پر لگانا کہاں کی عقلمندی ہے؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں ان نوجوانوں کی زندگی کے پس منظر پر جھانکنا پڑے گا کہ آخر وہ کون سے عوامل تھے کہ یہ نوجوان اس پُرخطر اور دشوار گزار راستے پر چل پڑے؟ کیا کسی ملک کا بارڈر پار کرنا کوئی معمولی بات ہے؟ اور وہ بھی ایک ملک نہیں بلکہ تین سے چار ممالک کی سرحدوں کو اور ان کی سیکیورٹی فورسز کو چکما دیتے ہوئے عبور کرنا ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے مترادف ہے۔ اور صرف سیکیورٹی فورسز نہیں بلکہ ان راستوں کے چپے چپے پر راہزن اور لُٹیرے موجود ہوتے ہیں جن سے آنکھ مچولی کرتے ہوئے منزل تک جانا پڑتا ہے۔ اس سب کے باوجود یہ نوجوان نہیں رُکے اور اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا۔ اس انتہائی قدم کو اٹھانے کے پیچھے ان کے ساتھ برتا جانے والا وہ ریاستی سِتم اور اِستبداد ہے جو انہیں ان کے اپنے ہی وطن میں غریب الوطن بناتا ہے۔
ان نوجوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اور ان کے والدین گزشتہ پچاس برسوں سے بدترین نسلی عصبیت کا شکار ہیں۔ 71ء میں تقسیمِ پاکستان کے بعد ان کے آبا و اجداد نے بچے کچھے پاکستان کا انتخاب کیا اور نوزائیدہ مملکتِ بنگال کو مسترد کر کے اسے خیرباد کہا اور پاکستان کی جانب ہجرت کر آئے۔ تب سے اب تک یہ مفلوک الحال شہری اپنے بنیادی حق یعنی شناخت حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں ان کی تیسری نسل جوان ہو چکی ہے مگر ریاست یہ جانتے ہوئے بھی انہیں ان کا حق نہیں دے رہی ہے کہ یہ لوگ خالصتاً پاکستانی ہیں اور دنیا کی کوئی بھی عدالت صرف زبان کی بنیاد پر انہیں بنگلہ دیشی ثابت نہیں کر سکتی۔
ان کا مسئلہ آئین میں ذرا سی ترمیم کر کے حل ہو سکتا ہے۔ مگر پچاس سالوں سے التواء کے شکار اس ترمیم کو عمل میں کون لائے گا؟ پاکستان جیسے جمہوری ملکوں میں حقوق حاصل کرنے کا روایتی اور جمہوری طریقہ یہ ہے کہ ایوان میں پہنچ کر اپنے علاقے یا برادری کے لیے آواز اٹھائی جائے، مگر انتخابات میں حصہ لے کر ایوان تک پہنچنا اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا تو درکنار یہ لوگ تو حقِ رائے دہی جیسے بنیادی حق سے ہی محروم ہیں۔
جس ملک میں سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کی خاطر آئین کو کھیلونا بنا کر رکھ دیتی ہیں، جہاں ایک آمر سرے سے آئین ہی کو معطل کر دیتا ہے، جہاں ناموس رسالتؐ کے قانون میں رد و بدل کرنے کی بارہا جرأت کی جا چکی ہے اور جس ملک میں وزیراعظم کے لیے صادق و امین ہونے کی شرط کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا سکتی ہیں، کیا وہاں ان خستہ حال بنگالی برادری کو خوشحال زندگی فراہم کرنے اور برسوں سے سلب ہوئے ان کے بنیادی حقوق کو بحال کرنے کے لیے آئین میں ترمیم نہیں کی جا سکتی؟ تا کہ یہ نوجوان اس قسم کے غیر قانونی راستوں پر چلنے کے بجائے اپنے ہی ملک میں عزت سے روزگار حاصل کر سکیں۔
جب آپ کسی سے اس کے بنیادی حقوق چھین لیں، جس کے نتیجے میں وہ کہیں پر ملازمت کرنے، کاروبار کرنے اور جائیدادیں بنانے کے قابل نہ رہے یہاں تک کے تعلیم حاصل کرنے سے بھی محروم رہے۔ اور پھر آپ یہ توقع رکھیں کہ وہ کسی کرمنل ایکٹوٹی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ آپ کا مال اور آپ کی جانیں ان سے محفوظ رہیں گی۔ ایسی توقعات آپ ان بنگالیوں سے ہی رکھ سکتے ہیں جو امن و امان کے لیے خطرے کا باعث نہیں بنتے۔ جو حُبّ الوطنی سے سرشار ہیں اور پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ جب آپ ان کے اپنے ہی ملک میں ان کی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے اور اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے لیے راہیں مسدود کر دیتے ہیں تو بجائے اس کے کہ یہ لوگ کسی مجرمانہ سرگرمیوں کا حصہ بنیں یہ اپنی جانوں کو داؤ پر لگا کر یوں دوسرے ممالک میں روزگار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ اس کے برعکس اُن غیر ملکی پناہ گزینوں کی بستیوں کا حال جا کر دیکھیں، جنہیں آپ ہمیشہ بنگالیوں کے ساتھ جوڑ کر ان مُحبّ وطن پاکستانیوں کو بھی پناہ گزین کہتے نہیں تھکتے۔ ان بستیوں کے آس پاس سے کوئی شریفُ النّفس شخص گزر نہیں سکتا۔ ڈاکو راج کلچر ہو یا منشیات کی فراہمی آپ وہاں ہر طرح سے جرائم کی شرح کو بلند ہی پائیں گے۔
اس کے بعد آپ ان بنگالی آبادیوں میں آئیں اور دیکھیں وہاں آپ کو ایسے بیشمار افراد مل جائیں گے جو کبھی انہی نوجوانوں کی طرح یورپ گئے تھے۔ وہاں ایک عرصہ گزار کر جہاں انہوں نے اپنی معاشی حالت کو مستحکم کیا وہیں انہیں طویل مدت قیام کرنے پر وہاں کی نیشنلٹی بھی حاصل ہو گئی۔ مگر ان کی حُبّ الوطنی دیکھیے کہ یہ کسی پرائے وطن کو اپنانے پر آمادہ ہی نہیں ہوتے اور ویزا لے کر قانونی طریقے سے واپس پاکستان آ جاتے ہیں۔ اور پھر اسی طرح قلاش زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان کی جیب میں یورپ کی نیشنلٹی ہوتی ہے، وہ نیشنلٹی جسے حاصل کر لینے کے بعد کئی دوسرے پاکستانی اپنے مادرِ وطن کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے اور بقیہ تمام زندگی مغرب میں بسر کرتے ہیں۔ مگر یہ لوگ وہاں کی پُر آسائش اور آسودہ حال زندگی کو ترک کر کے اپنے وطن واپس چلے آتے ہیں اور اپنی بقیہ تمام زندگی یہ سوچتے ہوئے کسمپرسی میں گزار دیتے ہیں کہ یہ ملک ان کے اجداد کی نشانی ہے جسے انہوں نے اپنے لہو سے سینچ کر تشکیل دیا تھا۔
ترکی میں اغوا ہونے والے یہ نوجوان بھی انہی کی طرح مُحبّ وطن ہیں۔ یہ نوجوان قوم کا مستقبل ہیں، یہ قوم کے معمار ہیں۔ یہ حد درجہ پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، ان کی حُبّ الوطنی کو مجروح نہ کیا جائے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ان مغوی پاکستانی بنگالیوں کی بازیابی کے لیے ترک حکومت سے رابطہ کرے اور پاکستان میں موجود ان بنگالیوں کے مسائل حل کرے تا کہ پھر کوئی نوجوان رزق کی تلاش میں کسی راہزن کے ہاتھوں بھینٹ نہ چڑھ جائے۔

اپنا تبصرہ لکھیں