Stranded Pakistani

اٹکے ہوئے پاکستانی

ذیشان احمد

۱۶ دسمبر ۲۰۲۰ء

رات کے بارہ بج چکے ہیں اور سولہ دسمبر کی وہ کرب ناک تاریخ پھر سے آن پہنچی ہے جو ہر سال اسی طرح آ کر محرومیوں کا احساس جگا دیتی ہے۔ اب سے ٹھیک 49 برس قبل ہم نے یحییٰ خان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مشرقی پاکستان گنوا دیا تھا۔
یہ سانحہ کیوں پیش آیا؟ اس کے عوامل اور محرکات کیا تھے؟ اس پر پہلے بھی لکھ چکا ہوں، آج اس پر بات نہیں کرنا چاہتا، ویسے بھی 49 سالوں سے اس پر خوب بحث ہو رہی ہے اور نتیجہ ہے کہ کچھ نکل کے نہیں دے رہا ہے، اور اس کا نتیجہ نکل بھی کیا سکتا ہے؟ چند ایک کو چھوڑ کر جو دانشور بھی اس سانحے پر اپنی دانشوری بھگارتے ہیں ان کا مقصد کیا ہے یہ میں آج تک سمجھ نہیں پایا۔ کیا وہ اس بگاڑ کو سدھار دینا چاہتے ہیں؟ کیا وہ بنگلہ دیش کو پھر سے مشرقی پاکستان بنا دینا چاہتے ہیں؟
یقیناً نہیں! وہ تو ابھی تک اس سانحے کے ذمہ دار اور قصوروار ہی تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ صبح جا کر اخبارات کھنگال لیجئے گا، آپ کو بیشتر کالم اس موضوع پر ملیں گے کہ پاکستان کیوں ٹوٹا؟ کوئی اس سانحے کا ذمہ دار شیخ مجیب الرّحمٰن کو قرار دیے رہا ہو گا تو کوئی ذوالفقار علی بھٹو کو مورد الزام ٹھہرائے گا، کچھ ہوں گے جو جنرل یحییٰ خان کو ملزم گردانیں گے۔ مگر اس کا حاصل کیا ہے؟ اور وہ کس مقصد کے تحت ہر سال یہ خامہ فرسائی کرتے ہیں؟ یہ میں کبھی سمجھ نہیں پایا۔ اس سانحے کے تمام ذمہ دار اور کردار اپنے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ اب کسی کو قصوروار ٹھہرانا کہ فلاں کی نا اہلی اور فلاح کی غلط پالیسیوں نے پاکستان کو دو لخت کر دیا، یہ محض وقت کا ضیاع ہے۔ اب جو باقی بچا ہے اسے سوتنے کی ضرورت ہے۔ جی ہاں! اب اگر کچھ کرنا ہے تو سانحہ زدگان کے لیے کیا جائے اور ان متاثرین کو ان کا حق دلوایا جائے جو اس سانحے کے ڈھسے ہوئے ہیں۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے تین گروہ اور تین فریق ہیں۔
پہلا گروہ مشرقی پاکستان میں بسنے والے ان بنگالیوں کا ہے جو تشکیل پاکستان کے بعد سے ہی محرومیاں محسوس کر رہے تھے کہ مغربی پاکستان والے ان کے ساتھ استبدادی رویہ روا رکھے ہوئے ہیں، انہیں سیاست اور اقتدار سے دور رکھا جاتا ہے۔ اس رویے کے خلاف انہوں نے علمِ بغاوت بلند کیا اور بالآخر بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔
دوسرا گروہ اور فریق وہ مہاجرین ہیں جو تقسیمِ ہند کے وقت بھارت کے شمال مشرقی حصوں سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان چلے گئے اور بنگالیوں کے ساتھ بسنے لگے، یہ لوگ حکمرانوں کی جانب سے بنگالیوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی نسلی عصبیت سے کوسوں دور رہتے ہوئے پاکستان کی سالمیت کو ترجیح دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ بنگالیوں کی جانب سے کی جانے والی وہ بغاوت جسے بھارت کی مکمل سپورٹ حاصل تھی کے مقابلے میں پاک فوج کے معاون بنےاور فریقِ اول کے لیے غدار قرار پائے۔
تیسرا فریق وہ تھا زبان اور ثقافتی لحاظ سے بنگالی تھا مگر حبّ الوطنی سے سرشار تھا، یہ لوگ پاکستان کے دو لخت ہونے کے خلاف تھے اور بنگلہ دیش کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا بنگلہ دیش کے قیام اور مشرقی پاکستان سے سبز ہلالی پرچم کا سایہ اٹھ جانے کے بعد یہ لوگ پاکستان کی جانب ہجرت کر آئے اور انہوں نے سبز احمری پرچم کے مقابلے میں سبز ہلالی پرچم کو ترجیح دی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہاں انہیں اُسی نسلی عصبیت کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے چھٹکارا پانے کے لیے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں نے ان سے آزادی حاصل کی تھی۔
مشرقی پاکستان کی جانب ہجرت کرنے والے مہاجرین جنہوں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی کال پر بھارت کے علاقے بہار، اڑیسہ، آسام اور کلکتہ سے پاکستان کے لیے ہجرت کی تھی اور اس وقت کے مشرقی پاکستان یعنی موجودہ بنگلہ دیش میں جا بسے تھے۔ یہ مہاجرین اپنا گھربار، کاروبار اور ملازمت سب کچھ چھوڑ کر مشرقی پاکستان پہنچے تھے۔ یہاں انہوں نے پاک سرزمین میں نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا۔
لیکن 71ء کے بعد ایک بار پھر انہیں اور ان کی اولادوں کو ہجرت درپیش تھی۔ جب شیخ مجیب الرحمٰن نے بنگلہ قومیت کی تحریک چلائی تو یہ اس سے الگ تھلگ رہے انہوں نے اپنی شناخت پاکستانی ہی کی حیثیت سے بنائے رکھی۔ پاکستان سے اس محبت نے انہیں ’’غدار‘‘ بنا دیا۔ جس وطن کے لیے انہوں نے گھربار چھوڑا تھا آج وہی وطن پرایا ہو چکا تھا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد ان پاکستانیوں نے اپنے لیے بچے کچھے پاکستان کا انتخاب کیا۔ بنگلہ دیش کو مسترد کر دینے اور پاکستان کا انتخاب کرنے پر انہیں بنگلہ دیش کی حکومت نے کیمپوں میں محصور کر کے رکھ دیا کہ جب پاکستان کو ان کا خیال آئے گا تب وہ انہیں یہاں سے لے جائیں گے۔ ان بنگلہ دیشی کیمپوں میں تین سے چار لاکھ محصورین گذشتہ 49 برسوں سے آباد ہیں، مہاجر کیمپوں کی ان کھولیوں میں وہ لوگ جانوروں سے بھی بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک ایک کمرے میں چھ چھ، سات سات افراد رہتے ہیں، گندگی اور غلاظت کی وجہ سے بیماریاں عام ہیں۔ ان کا بچہ اگر کسی نہ کسی طرح پڑھ لکھ جائے تو اسے نوکری نہیں ملتی۔ ملازمت کے لیے شناختی دستاویزات درکار ہوتے ہیں جو اسے میسر نہیں۔ جب وہ نوجوان کہتا ہے کہ وہ جنیوا کیمپ میں رہتا ہے تو اسے ’’اٹکے پورا پاکستانی‘‘ کہہ کر واپس کر دیا جاتا ہے۔ وہاں ہر اس فرد کو جو جنیوا کیمپ میں رہتا ہے اسے’’اٹکے پورا پاکستانی‘‘ کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے ’’اٹکے ہوئے پاکستانی‘‘۔
اچھی ملازمت نہ ہونے کی وجہ سے وہ نوجوان کم درجہ کی مزدوری اور غلامی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یوں اس نے جس غربت میں آنکھ کھولی ہوتی ہے وہ اسی غربت و افلاس میں دھنستا چلا جاتا ہے اور پاکستان کی وزارت خارجہ کے اس حکم نامے کا انتظار کرتا رہتا ہے جو اسے ان کھولیوں سے نکال کر اس کے اپنے وطن لے جائے گا۔ وہ وطن جس سے وفا کی سزا اس کے اجداد نے تا دمِ زیست کاٹی ہے۔ اور خود وہ نوجوان بھی اپنی زندگی کے پہلے روز بلکہ پہلی ساعت سے ہی ’’اٹکے پورا پاکستانی‘‘ ہونے کی وجہ سے اپنے آباء سے ورثے میں ملی اس سزا کو بھگت رہا ہے۔
یہاں میں اس تیسرے فریق کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا، جس کے بارے میں کچھ کہتے اور لکھتے ہوئے تمام دانشوروں کی زبانیں گنگ اور قلم منجمد ہو جاتے ہیں۔ جس کے حالات بھی بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں سے کسی طور مختلف نہیں ہیں، میری مراد بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان کو ترجیح دینے والے وہ بنگالی ہیں جو تقسیمِ پاکستان کے بعد پاکستان کی جانب ہجرت کر آئے، مگر پاکستان کی متعصب اشرافیہ ہے کہ ابھی تک انہیں تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔
پاکستان ہجرت کرنے کے بعد بنگالیوں کی بڑی تعداد کراچی میں آ کر آباد ہوئی، یہاں انہیں سب سے پہلے رہائش کا مسئلہ پیش آیا، شہریت نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ جائیدادیں نہیں بنا سکتے تھے لہٰذا مجبوراً ندی، نالوں کے کناروں اور اس جیسے دیگر بساندھا مقامات پر آباد ہوئے اور آج تک یہ وہیں آباد ہیں۔ کبھی وقت نکال کر اِن بنگالی بستیوں کا رخ کر کے تو دیکھیے یہ آپ کو کسی طور پر سیدپور کے جنیوا کیمپ سے مختلف نہیں لگیں گی۔ اگر وہاں غلاظتوں کی وجہ سے بیماریاں عام ہیں تو یہاں کے حالات بھی بالکل ویسے ہی ہیں، اگر وہاں کا نوجوان اچھی جگہ ملازمت کرنے کا خواہاں ہوتا ہے مگر شناختی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے نکال باہر کر دیا جاتا ہے تو یہاں کا منظرنامہ بھی مختلف نہیں ہے۔ یہاں بچوں کی نادرا میں رجسٹریشن نہ ہونا ان کی تعلیم میں رکاوٹ کا سبب ہے۔ ہر سال سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں کم سِن طلباء مڈل پاس کر کے مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیوں کہ مڈل سے آگے داخلہ لینے کے لیے ان کے پاس شناختی دستاویزات ہی نہیں ہوتے۔ غرض یہ کہ تعلیم کے مسائل ہوں یا جائیداد کے، ملازمت کا مسئلہ ہو یا کسی بھی لین دین کا معاملہ ہو ہر ہر جگہ پر ان محب وطن پاکستانیوں کو مشرقی پاکستان کی چھاپ کی وجہ سے رسوا اور ذلیل ہونا پڑتا ہے۔
پاکستان میں موجود ان بنگالیوں کو بعینہ اُنہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بنگلہ دیش کے اٹکے پورا پاکستانیوں کو درپیش ہیں۔ وہ تو ”دیار غیر“ میں اٹکے ہوئے ہیں مگر یہ تو ”گھر کے اجنبی“ ہیں۔ جی ہاں! یہ یہاں کہ اٹکے پورا پاکستانی ہیں۔
میری حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ تمام تر خارجہ پالیسیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بنگلہ دیشی کیمپوں میں محصور ان سولین پاکستانیوں کو واپس لایا جائے جس طرح نوے ہزار ملٹری محصورین کو لایا گیا تھا۔ اور جو بنگالی پاکستان ہجرت کر کے آ چکے ہیں انہیں بھی تسلیم کیا جائے اور انہیں اپنے وطن سے وفا کرنے کا صلہ دیتے ہوئے ان کی کھوئی ہوئی میراث انہیں لوٹا دی جائے۔

اپنا تبصرہ لکھیں