The miracle of the moon splitting into 2 parts

معجزہ شقرالقمر جو برطانوی سائنسدان کے اسلام میں داخلے کا سبب بنا

ٹی وی میزبان نے چیختے ہوئے کہا کہ یہ کیسا فضول پن ہے؟ ایک امریکی جھنڈے کو چاند پر لگانے کے لیے اتنے ڈالر خرچ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ سائنسدانوں نے جواباً کہا کہ نہیں! ہم چاند پر اس لیے نہیں گئے کہ ہم وہاں جھنڈا گاڑ سکیں، بلکہ ہمارا مقصد چاند کی بناوٹ کا جائزہ لینا تھا۔ دراصل ہم نے چاند پر ایک ایسی دریافت کی ہے کہ جس کا لوگوں کو یقین دلانے کے لیے ہمیں اس سے دوگنی رقم بھی خرچ کرنا پڑ سکتی ہے۔۔۔ The miracle of the moon splitting

The miracle of the moon splitting into 2 parts

ڈاکٹر زغلول النجار ان چند عبقری شخصیات میں سےہیں، جو علمی و سائنسی میدان میں اسلام کی گرانقدر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ مصر سے تعلق رکھنے والے یہ نامور داعی جامعہ قاہرہ کے فارغ التحصیل اور برطانیہ کی جامعہ ویلز کے پی ایچ ڈی (جیالوجی) ہیں۔ اب وہ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں ارضیات کے پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ میں برطانیہ کے مغرب میں واقع کارڈف یونیورسٹی میں لیکچر دے رہا تھا۔ جس کو سننے کے لیے مسلم اور غیر مسلم طلباء کی کثیر تعداد موجود تھی۔ قرآن میں بیان کردہ سائنسی حقائق پر جامع انداز میں گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک نو مسلم نوجوان کھڑا ہوا اور چاند کے دو ٹکڑے ہونے سے متعلق قرآن کی آیت کا ذکر کیا اور کہا کہ سر کیا یہ قرآن میں بیان کردہ ایک سائنسی حقیقت نہیں ہے؟ ڈاکٹر زغول نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں! کیونکہ سائنس کی دریافت کردہ حیران کن اشیاء یا واقعات کی تشریح سائنس کے ذریعے کی جا سکتی ہے، مگر معجزہ ایک مافق الفطرت شے ہے، جس کو ہم سائنسی اصولوں سے ثابت نہیں کر سکتے۔ چاند کا دو ٹکڑے ہونا ایک معجزہ تھا، جس کو حق تعالیٰ نے نبوت محمدیؐ کی سچائی کے لیے بطور دلیل دکھایا۔ حقیقی معجزات ان لوگوں کےلیے قطعی طورپر سچائی کی دلیل ہوتے ہیں جو ان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہم اس کو اس لیے معجزہ تسلیم کرتے ہیں، کیونکہ اس کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ اگر یہ ذکر قرآن و حدیث میں موجود نہ ہوتا تو ہم اس زمانے کے لوگ اس کو معجزہ تسلیم نہ کرتے۔ علاوہ ازیں ہمارا اس پر بھی ایمان ہے کہ خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ پھر انہوں نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ بیان کیا۔ اس دوران ایک برطانوی نو مسلم شخص کھڑا ہوا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ میرا نام داؤد موسیٰ پڈ کاک (David Musa Pidcock) ہے۔ میں برطانیہ کی اسلامی سیاسی پارٹی کا صدر ہوں۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا کہ سر! اگر آپ اجازت دیں تو اس موضوع کے متعلق میں بھی کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، تم بات کر سکتے ہو۔
اس نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے جب میں مختلف مذاہب کی تحقیق کر رہا تھا، ایک مسلمان دوست نے مجھے قرآن شریف کی انگلش تفسیر پیش کی۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اسے گھر لے آیا۔ گھر آ کر جب میں نے قرآن کو کھولا تو سب سے پہلے میری نظر جس صفحے پر پڑی وہ یہی سورۃ القمر کی ابتدائی آیات تھیں، جن میں چاند والے معجزے کا ذکر ہے۔ ان آیات کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کے بعد میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اس بات میں کوئی منطق ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ چاند کے دو ٹکڑے ہوں اور پھر آپس میں دوبارہ جڑ بھی جائیں؟ وہ کون سی طاقت تھی کہ جس نے ایسا کیا؟ ان آیات کریمہ نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں قرآن کا مطالعہ برابر جاری رکھوں۔ کچھ عرصے کے بعد میں اپنے گھریلو کاموں میں مصروف ہو گیا مگر میرے اندر سچائی کو جاننے کی تڑپ کا خدا تعالیٰ کو خوب علم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کا کرنا ایک دن ایسا ہوا کہ میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ ٹی وی پر ایک باہمی مذاکرے کا پروگرام چل رہا تھا۔ جس میں ایک میزبان کے ساتھ تین امریکی ماہرین فلکیات بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹی وی شو کا میزبان سائنسدانوں پر الزام لگا رہا تھا کہ اس وقت جب کہ زمین پر بھوک، افلاس، بیماری اور جہالت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، آپ لوگ بے مقصد خلا میں دورے کرتے پھر رہے ہیں۔ جتنا پیسہ آپ ان کاموں پر خرچ کر رہے ہیں، وہ اگر زمین پر خرچ کیا جائے تو کچھ اچھے منصوبے بنا کر لوگوں کی حالت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے اور اپنے کام کا دفاع کرتے ہوئے ان تینوں سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ خلائی ٹیکنالوجی زندگی کے مختلف شعبوں ادویات، صنعت اور زراعت کو وسیع پیمانے پر ترقی دینے میں استعمال ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سرمائے کو ضائع نہیں کر رہے، بلکہ اس سے انتہائی جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دینے میں مدد مل رہی ہے۔ جب انہوں نے بتایا کہ چاند کے سفر پر آنے جانے کے انتظامات پر اربوں ڈالرز کا خرچہ آتا ہے تو ٹی وی میزبان نے چیختے ہوئے کہا کہ یہ کیسا فضول پن ہے؟ ایک امریکی جھنڈے کو چاند پر لگانے کے لیے اتنے ڈالر خرچ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ سائنسدانوں نے جواباً کہا کہ نہیں! ہم چاند پر اس لیے نہیں گئے کہ ہم وہاں جھنڈا گاڑ سکیں، بلکہ ہمارا مقصد چاند کی بناوٹ کا جائزہ لینا تھا۔ دراصل ہم نے چاند پر ایک ایسی دریافت کی ہے کہ جس کا لوگوں کو یقین دلانے کے لیے ہمیں اس سے دوگنی رقم بھی خرچ کرنا پڑ سکتی ہے۔ مگر تا حال لوگ اس بات کو نہ مانتے ہیں اور نہ کبھی مانیں گے۔ میزبان نے پوچھا کہ وہ دریافت کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک دن چاند کے دو ٹکڑے ہوئے تھے اور پھر یہ ٹکڑے دوبارہ آپس میں مل گئے۔ میزبان نے پوچھا کہ آپ نے یہ چیز کس طرح محسوس کی؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے تبدیل شدہ چٹانوں کی ایک ایسی پٹی وہاں دیکھی ہے کہ جس نے چاند کو اس کی سطح سے مرکز تک اور پھر مرکز سے اس کی دوسری سطح تک کو کاٹا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس بات کا تذکرہ ارضیاتی ماہرین سے بھی کیا ہے۔ ان کی رائے کے مطابق ایسا ہرگز اس وقت تک نہیں ہو سکتا کہ کسی دن چاند کے دو ٹکڑے ہوئے ہوں اور پھر دوبارہ آپس میں جڑ بھی گئے ہوں۔
برطانوی نو مسلم نے بتایا کہ جب میں نے یہ گفتگو سنی تو اپنی کرسی میں اچھل پڑا اور بے ساختہ میرے منہ سے نکلا خدا نے امریکیوں کو اس کام کے لیے تیار کیا کہ وہ اربوں ڈالر لگا کر مسلمانوں کے معجزے کو ثابت کریں۔ وہ معجزہ کہ جس کا ظہور آج سے چودہ سو برس قبل مسلمانوں کے پیغمبر کے ہاتھوں ہوا۔ میں نے سوچا کہ اس مذہب کو ضرور سچا ہونا چاہیے۔ میں نے قرآن کو کھولا اور سورۃ القمر کو پھر پڑھا۔ درحقیقت یہی سورۃ میرے اسلام میں داخلے کا سبب بنی۔ پھر میں تعلیم مکمل کر کے سعودی عرب چلا گیا اور وہاں قبول اسلام کا اعلان کیا۔
(الموقع الاسلامی) The miracle of the moon splitting into 2 parts
داؤد موسیٰ نے اپنے قبول اسلام کا یہ واقعہ ایک تفصیلی ویڈیو میں بھی بیان کیا ہے، جو My journey to Islam کے نام سے یوٹیوب میں موجود ہے۔

The miracle of the moon splitting into 2 parts

اپنا تبصرہ لکھیں