وحی کی حقیقت اور اسرار پر مبنی ایک معرکۃالآرا تحریر

وحی اور اس کی حقیقت

قرآنِ کریم چونکہ سروَرِ کائنات حضرتِ محمد مصطفیٰﷺ پر وحی کے ذریعے نازل کیا گیا ہے، اس لئے سب سے پہلے وحی کے بارے میں چند ضروری باتیں سمجھ لینی چاہئیں۔

وحی کی ضرورت:

ہر مسلمان جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں آزمائش کے لئے بھیجا ہے، اور اس کے ذمے کچھ فرائض عائد کر کے پوری کائنات کو اس کی خدمت میں لگا دیا ہے، لہٰذا دنیا میں آنے کے بعد انسان کے لئے دو دکام ناگزیر ہیں، ایک یہ کہ وہ اس کائنات سے اور اس میں پیدا کی ہوئی اشیاء سے ٹھیک ٹھیک کام لے، دوسرے یہ کہ اس کائنات کو استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے احکام کو مد نظر رکھے، اور کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہو۔

          ان دونوں کاموں کے لئے انسان کو ’’علم‘‘ کی ضرورت ہے، اس لئے کہ جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی کون سی چیز کے کیا خواص ہیں؟ ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟ اس وقت تک وہ دنیا کی کوئی بھی چیز اپنے فائدے کے لئے استعمال نہیں کر سکتا، نیز جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کیا ہے؟ وہ کون سے کاموں کو پسند اور کن کو ناپسند فرماتا ہے؟ اس وقت تک اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں۔

            چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تین چیزیں ایسی پیدا کی ہیں جن کے ذریعے اسے مذکورہ بالا باتوں کا علم ہوتا رہے، ایک انسان کے حواس یعنی آنکھ، کان، منہ، ناک اور ہاتھ پاؤں، دوسرے عقل اور تیسرے وحی۔ چنانچہ انسان کو بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعے معلوم ہو جاتی ہیں، بہت سی عقل کے ذریعے، اور جو باتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہو سکتیں کا علم وحی کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے۔

            علم کے ان تینوں ذرائع میں ترتیب کچھ ایسی ہے کہ ہر ایک کی ایک خاص حد اور مخصوص دائرہ کار ہے، جس کے آگے وہ کام نہیں دیتا، چنانچہ جو چیزیں انسان کو اپنے حواس سے معلوم ہو جاتی ہیں، ان کا علم نری عقل سے نہیں ہو سکتا، مثلاً ایک دیوار کو آنکھ سے دیکھ کر آپ کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ اس کا رنگ سفید ہے، لیکن اگر آپ اپنی آنکھوں کو بند کر کے صرف عقل سے اس دیوار کا رنگ معلوم کرنا چاہیں تو یہ ناممکن ہے، اسی طرح جن چیزوں کا علم عقل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، وہ حواس سے معلوم نہیں ہو سکتیں، مثلاً آپ صرف آنکھوں سے دیکھ کر یا ہاتھوں سے چھو کر یہ پتہ نہیں لگا سکتے کہ اس دیوار کو کسی انسان نے بنایا ہے، بلکہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لئے عقل کی ضرورت ہے۔

            غرض جہاں تک حواسِ خمسہ کام دیتے ہیں، وہاں تک عقل کوئی رہنمائی نہیں کرتی، اور جہاں حواسِ خمسہ جواب دے دیتے ہیں، وہیں سے عقل کا کام شروع ہوتا ہے۔ لیکن اس عقل کی رہنمائی بھی غیر محدود نہیں ہے، یہ بھی ایک حد پر جا کر رک جاتی ہے، اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا علم نہ حواس کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے اور نہ عقل کے ذریعے، مثلاً اسی دیوار کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ اس کو کس طرح استعمال کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی اور کس طرح استعمال کرنے سے ناراض ہو گا؟ یہ نہ حواس کے ذریعے ممکن ہے، نہ عقل کے ذریعے، اس قسم کے سوالات کا جواب انسان کو دینے کے لئے جو ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اسی کا نام ’’وحی‘‘ ہے، اور اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب فرما کر اسے اپنا پیغمبر قرار دیتا ہے اور اس پر اپنا کلام نازل فرماتا ہے، اسی کلام کو ’’وحی‘‘ کہا جاتا ہے۔

            یہ بات ایک اور مثال سے شاید زیادہ واضح ہو گی، فرض کیجئے کہ میرے ہاتھ میں ایک پستول ہے، اسے آنکھ سے دیکھ کر میں اس کا سائز اور اس کی صورت معلوم کر سکتا ہوں، میں ہاتھ سے چھو کر یہ معلوم کر سکتا ہوں کہ یہ کسی ٹھوس چیز سے بنی ہوئی ہے، اس کا ٹریگر دبا میں یہ جان سکتا ہوں کہ اس سے ایک گولی پوری قوت سے نکل کر دور گئی ہے، اس کی آواز سن کر مجھے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سے ایک دھماکہ پیدا ہوتا ہے، اور اس کی نالی کو سونگھ کر یہ پتہ لگا سکتا ہوں کہ اس میں سے بارود کی بو آ رہی ہے، یہ ساری اطلاعات مجھے میرے ظاہری حواس یعنی آنکھ، ہاتھ، کان اور ناک نے فراہم کی ہیں۔ لیکن اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اسے کس نے بنایا؟ تو میرے یہ ظاہری حواس اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے، اس موقع پر میں عقل سے سوچتا ہوں تو عقل مجھے یہ بتاتی ہے کہ یہ پستول جس انداز سے بنا ہوا ہے وہ خودبخود وجود میں نہیں آ سکتا، یقیناً کسی کاریگر نے اسے بنایا ہے، وہ کاریگر نہ میری آنکھوں سے نظر آ رہا ہے، نہ میرے کان اس کی آواز سن رہے ہیں، مگر میری عقل کے ذریعے مجھے یہ علم حاصل ہو گیا ہے کہ اسے کسی کاریگر انسان نے بنایا ہے۔

            اب ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ہتھیار کا کون سا استعمال جائز اور کون سا ناجائز ہے؟ اس سوال کے جواب میں بھی میری عقل ایک حد تک میری مدد کر سکتی ہے، میں عقل سے سوچ سکتا ہوں کہ اس ہتھیار کے ذریعے کسی بے گناہ کو قتل کرنا بہت برا کام ہے، جس کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس کو بے گناہ کہا جائے اور کس کو مجرم؟ اور کون سا جرم ایسا ہے جس کی سزا میں اس پستول کو استعمال کر کے کسی کو قتل کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن پر اگر میں صرف عقل کی بنیاد پر غور کروں تو عقل مجھے الجھن میں ڈال دیتی ہے۔ مثلاً اگر ایک قاتل میرے سامنے ہے جس نے کسی بے گناہ کی جان لی، اس کے بارے میں مَیں عقل سے سوچتا ہوں تو کبھی عقل یہ کہتی ہے کہ اس قاتل نے ایک جیتے جاگتے انسان کو موت کی نیند سلا دیا، اس کی بیوی کو بیوگی کا زخم دیا، بچوں کو بلاوجہ یتیم بنا کر انہیں باپ کی شفقت سے محروم کیا، اس لئے یہ جرم اس لائق ہے کہ اسے بھی موت کے گھاٹ اتار کر دوسروں کے لئے عبرت کا سامان بنا دیا جائے۔ لیکن دوسری طرف وہی عقل ایک دوسری دلیل دیتی ہے، وہ کہتی ہے کہ جس مقتول کو مرنا تھا وہ تو مر گیا، قاتل کو قتل کرنے سے نہ وہ واپس آ سکتا ہے، نہ اس کی بیوی بچوں کو ان کا محبوب واپس مل سکتا ہے، اس کے بجائے اگر اس قاتل کو بھی قتل کیا جائے گا تو اس کے وہ بیوی بچے مصائب کا شکار ہوں گے جن کا کوئی جرم نہیں ہے۔

            یہ دونوں دلیلیں عقل ہی کے سہارے وجود میں آئی ہیں، اس لئے نری عقل کے بھروسے پر کوئی ایسا فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے جس پر سب کی عقلیں مطمئن ہو جائے۔

            یہ وہ موقع ہے جہاں نہ میرے حواس کوئی فیصلہ کن جواب دینے کے قابل ہیں، نہ میری عقل۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہی درکار ہوتی ہے جو وہ اپنے پیغمبروں پر وحی نازل کر کے انسانیت کو فراہم کرتا ہے۔

            اس سے واضح ہو گیا کہ وحی انسان کے لئے وہ اعلیٰ ترین ذریعہ علم ہے جو اسے اس کی زندگی سے متعلق ان سوالات کا جواب مہیا کرتا ہے جو عقل اور حواس کے ذریعے حل نہیں ہو سکتے، لیکن ان کا علم حاصل کرنا اس کے لئے ضروری ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ صرف عقل اور مشاہدہ انسان کی رہنمائی کے لئے کافی نہیں، بلکہ اس کی ہدایت کے لئے وحئ اِلٰہی ایک ناگزیر ضرورت ہے، اور چونکہ بنیادی طور پر وحی کی ضرورت پیش ہی اس جگہ آتی ہے جہاں عقل کام نہیں دیتی، اس لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وحی کی ہر بات کا ادراک عقل سے ہو ہی جائے، بلکہ جس طرح کسی چیز کا رنگ معلوم کرنا عقل کا کام نہیں، بلکہ حواس کا کا کام ہے، اسی طرح بہت سے دینی عقائد کا علم عطا کرنا بھی عقل کے بجائے وحی کا ،منصب ہے، اور ان کے ادراک کے لئے نری عقل پر بھروسہ کرنا درست نہیں۔

            جو شخص (معاذاللہ) خدا کے وجود ہی کا قائل نہ ہو، اس سے تو وحی کے مسئلے پر بات کرنا بالکل بےسود ہے، لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی قدرتِ کاملہ پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لئے وحی کی عقلی ضرورت، اس کے امکان اور حقیقی وجود کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ اگر آپ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ کائنات ایک قادرِ مطلق نے پیدا کی ہے، وہی اس کے مربوط اور مستحکم نظام کو اپنی حکمتِ بالغہ سے چلا رہا ہے، اور اسی انسان کو کسی خاص مقصد کے لئے یہاں بھیجا ہے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد بالکل اندھیرے میں چھوڑ دیا ہو، اور اسے یہ تک نہ بتایا ہو کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا ہے؟ یہاں اس کے ذمے کیا فرائض ہیں؟ اس کی منزلِ مقصود کیا ہے؟ کیا کوئی شخص جس کے ہوش و حواس سلامت ہوں ایسا کر سکتا ہے کہ اپنے کسی نوکر کو ایک خاص مقصد کے تحت کسی سفر پر بھیج دے، اور اسے نہ چلتے وقت سفر کا مقصد بتائے، اور نہ بعد میں کسی پیغام کے ذریعے اس پر واضح کرے کہ اسے کس کام کے لئے بھیجا گیا ہے؟ اور سفر کے دوران اس کی ڈیوٹی کیا ہو گی؟ جب ایک معمولی عقل کا انسان بھی ایسی حرکت نہیں کر سکتا تو آخر اس خداوندِ قدوس کے بارے میں یہ تصور کیسے کیا جا سکتا ہے جس کی حکمتِ بالغہ سے کائنات کا یہ سارا نظام چل رہا ہے؟ یہ آخر کیسے ممکن ہے کہ جس ذات نے چاند، سورج، آسمان، زمین، ستاروں اور سیاروں کا ایسا محیرالعقول نظام پیدا کیا ہو، وہ اپنے بندوں تک پیغام رسانی کا کائی ایسا انتظام بھی نہ کر سکے جس کے ذریعے انسانوں کو ان کے مقصدِ زندگی سے متعلق ہدایات دی جا سکیں؟ اگر اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ پر ایمان ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس نے اپنے بندوں کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا، بلکہ ان کی رہنمائی کے لئے کوئی باقاعدہ نظام ضرور بنایا ہے، بس رہنمائی کے اسی باقاعدہ نظام کا نام وحی و رسالت ہے۔

            اس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ ’’وحی‘‘ محض ایک دینی اعتقاد ہی نہیں، بلکہ ایک عقلی ضرورت ہے، جس کا انکار درحقیقت اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ کا انکار ہے۔ یہ وحی اللہ تعالیٰ نے ان ہزاروں پیغمبروں پر نازل فرمائی جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں لوگوں کی ہدایت کا سامان کیا۔ یہاں تک کہ حضورِ اقدس محمد مصطفیٰﷺ پر قرآنِ کریم قیامت تک آنے والے انسانوں کی رہنمائی کے لئے نازل فرمایا گیا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس مقدس سلسلے کی تکمیل ہو گئی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی کے طریقے:

آنحضرتﷺ پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی، صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حارث بن ہشامؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ پر وحی کس طرح آتی ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبھی تو مجھے گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے، اور وحی کی یہ صورت میرے لئے سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے، پھر جب یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے تو جو کچھ اس آواز نے کہا ہوتا ہے، مجھے یاد ہو چکا ہوتا ہے، اور کبھی فرشتہ میرے سامنے ایک مرد کی صورت میں آ جاتا ہے۔

(صحیح بخاری: جلد ۱، صفحہ ۲)

            اس حدیث میں آپؑ نے ’’وحی‘‘ کی آواز کو گھنٹیوں کی آواز سے جو تشبیہ دی ہے، شیخ محی الدین ابنِ عربیؒ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ایک تو وحی کی آواز گھنٹی کی طرح مسلسل ہوتی ہے اور بیچ میں ٹوٹتی نہیں، دوسرے گھنٹی جب جب مسلسل بجتی ہے تو عموماً سننے والے کو اس کی آواز کی سمت معین کرنا مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ اس کی آواز ہر جہت سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، اور کلامِ الٰہی کی بھی یہ خصوصیت ہے کہ اس کی کوئی ایک سمت نہیں ہوتی، بلکہ ہر جہت سے آواز سنائی دیتی ہے، اس کیفیت کا صحیح ادراک تو بغیر مشاہدے کے ممکن نہیں، لیکن اس بات کو عام ذہنوں سے قریب کرنے کے لئے آپ نے اُسے گھنٹیوں کی آواز سے تشبیہ دی ہے۔

(فیض الباری: جلد ۱، صفحہ ۱۹، ۲۰)

            جب اس طریقے سے آپ پر وحی نازل ہوتی تو آپؑ پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا تھا، حضرت عائشہؓ اسی حدیث کے آخر میں فرماتی ہیں کہ میں نے سخت جاڑوں کے دن میں آپؐ پر وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھی ہے، ایسی سردی میں بھی جب وحی کا سلسلہ ختم ہوتا تو آپ کی مبارک پیشانی پسینے سے شرابور ہو چکی ہوتی تھی۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب آپ پر وحی نازل ہوتی تو آپ کا سانس رکنے لگتا، چہرۂ انور متغیر ہو کر کھجور کی شاخ کی طرح زرد پڑ جاتا، سامنے کے دانت سردی سے کپکپانے لگتے، اور آپ کو اتنا پسینہ آتا کہ اس کے قطرے موتیوں کی طرح ڈھلکنے لگتے تھے۔

(الاتقان: جلد ۱، صفحہ ۴۶)

            وحی کی کیفیت میں بعض اوقات اتنی شدت پیدا ہو جاتی کہ آپ جس جانور پر اُس وقت سوار ہوتے وہ آپ کے بوجھ سے دَب کر بوجھ جاتا۔ اور ایک مرتبہ آپ نے اپنا سرِ اقدس حضرت زیدؓ بن ثابتؓ کے زانو پر رکھا ہوا تھا، کہ اسی حالت میں وحی نازل ہونی شروع ہو گئی، اس سے حضرت زیدؓ کی ران پر اتنا بوجھ پڑا کہ وہ ٹوٹنے لگی۔

(زادالمعاد: جلد۱، صفحہ ۱۷، ۱۹)

            بعض اوقات اس وحی کی ہلکی ہلکی آواز دوسروں کو بھی ،محسوس ہوتی تھی، حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب آپ پر وحی نازل ہوتی تو آپ کے چہرۂ انور کے قریب شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنائی دیتی تھی۔

(تبویب مسند احمد، کتاب السیرۃالنبویہ، جلد ۲۰، صفحہ ۲۱۲)

            وحی کی دوسری صورت یہ تھی کہ فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپ کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیتا تھا، ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبیؓ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے، البتہ بعض اوقات کسی دوسری صورت میں بھی تشریف لائے ہیں۔ بہرکیف!  جب حضرت جبرئیل علیہ السلام انسانی شکل میں وحی لے کر آتے تو نزول وحی کی یہ صورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سب سے آسان ہوتی تھی۔

(الاتقان: جلد ۱، صفحہ ۴۶)

            وحی کی تیسری صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی انسانی شکل اختیار کئے بغیر پنی اصلی صورت میں دِکھائی دیتے تھے، لیکن ایسا آپ کی تمام عمر میں صرف مرتبہ ہوا ہے، ایک مرتبہ اس وقت جب آپ نے خود حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ان کی اصل شکل میں دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی، دوسری مرتبہ معراج میں اور تیسری بار نبوت کے بالکل ابتدائی زمانے میں مکہ مکرمہ کے مقام اَجیاد پر، پہلے دو واقعات تو صحیح سند سے ثابت ہیں، البتہ یہ آخری واقعہ سنداً کمزور ہونے کی وجہ سے مشکوک ہے۔

(فتح الباری: جلد ۱، صفحہ ۱۷، ۱۹)

            چوتھی صورت براہِ راست اور بلا واسطہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہم کلامی کی ہے، یہ شرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بیداری کی حالت میں صرف ایک بار، یعنی معراج کے وقت حاصل ہوا ہے، البتہ ایک مرتبہ خواب میں بھی آپ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے ہیں۔

(الاتقان: جلد ۱، صفحہ ۴۶)

            وحی کی پانچویں صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی بھی صورت میں سامنے آئے بغیر آپ کے قلبِ مبارک میں کوئی بات اِلقاء فرما دیتے تھے، اسے اصطلاح میں ’’نفث فی الرّوع‘‘ کہتے ہیں۔

(الاتقان: جلد ۱، صفحہ ۴۶)

بحوالہ: آسان ترجمہ قرآن از شیخ الاسلام جسٹس (ر) حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ

اپنا تبصرہ لکھیں